امریکی سفارت خانے کو اسالم آباد میں 18ایکڑ اراضی دینے اور عرب و خلیجی ممالک کو سات الکھ ایکڑ زرعی اراضی لیز پر دینے کے اقدام کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ وطن پارٹی کی طرف سے بیرسٹر ظفر ہللا خان کے ذریعے آئینی رٹ درخواست میں کہا گیا ہے کہ امریکہ 18ایکڑ اراضی لے کر فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے 201گھر کرایہ پر لینے اور ایک ہزار میرینز تعینات کرنے سے ہمارے ایٹمی اثاثوں اور ملکی سالمتی کو شدید خطرہـ ہوسکتا ہے۔ اسالم آباد میں امریکی سفارت خانے میں توسیع کے نام پر جو نیا کھیل شروع ہوا ہے اس پرپوری قوم تشویش میں مبتال ہے کیونکہ یہ کھیل اس وقت شروع ہوا جب افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کی مشکالت میں اضافے ،طالبان کی پیش قدمی اور ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کے خالف بڑھتی ہوئی نفرت کی بنا پر نئے امریکی صدر بارک حسین اوبامہ نے افغانستان کے بارے میں سابق صدر بش کی پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ ظاہر کیا اور امریکہ کے سمجھدار حلقوں نے تسلسل سے امریکی حکومت کو باور کرایا کہ وہ افغانستان پر طاقت کی پالیسی ترک کرکے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرے اور فوجی انخالء کی حکمت عملی ترتیب دے۔ امریکہ کی وار انڈسٹری نے اس صورتحال سے گھبرا کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظـ ہونے اور اسالم آباد پر دہشت گردوں کے قبضے کا منفی پراپیگنڈا شروع کردیا اور یہ کہا جانے لگا کہ اگر امریکی انتظامیہ نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان پر دبائو نہ ڈاال تو نہ صرف امریکہ کو پورے خطے سے رخصت ہونا پڑیگا بلکہ پاکستان القاعدہ اور طالبان کی آماجگاہـ بن کر پوری دنیا کیلئے خطرہ ثابت ہوگا۔چنانچہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی اور اسالم آباد پر طالبان کے قبضے کا شوشہ چھوڑ کر نہ صرف حکومت اور پاک فوج کو سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن پر مجبور کیا گیا بلکہ امریکی فوج کے آپریشن کا ہوا دکھا کر اسالم آباد میں وہ مراعات حاصل کی گئیں جن کا کوئی آزاد ،خودمختار اور خوددار ملک تصور نہیں کرسکتا۔ کابل اور بغداد میں امریکیوں کو کھل کھیلنے کیلئے اپنے اڈے قائم کرنے ،فوجی تعینات کرنے اور جاسوس داخل کرنے کی اس لئے آزادی ہے کہ افغانستان و عراق امریکہ کی مقبوضہ ریاستیں ہیں امریکہ اورنیٹو فورسز ان دونوں ممالک کی آزادی اور خودمختاری سلب کر چکی ہیں لیکن پاکستان اب تک نہ تو خدانخواستہ امریکہ کی کسی فوجی جارحیت کا نشانہ بنا ہے اور نہ اس نے امریکہ کو اپنی حفاظت یا کسی دوسرے مقصد کیلئے اپنے فوجی تعینات کرنے کی کوئی درخواست کی ہے اس کے باوجود اسالم آباد اور پشاور میں بدنام زمانہ بلیک واٹر تنظیم خالف قانون سرگرمیاں ،سفارت خانے کے نام پر فوجی چھائونی کی تعمیر ،ڈاکٹر عبدالقدیر ِ کی خان کی رہائش گاہ اور دیگر حساس تنصیبات کے قریب عمارات حاصل کرنے کی امریکی کوشش ،پشاور کے ایک ہوٹل کو خریدنے کی خواہش اور ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کی حکمت عملی سے پوری قوم تشویش میں مبتال ہے اور اسے پاکستان کے خالف بھارت کی ممکنہ جارحیت اور شیطانی اتحاد ثالثہ کی مذموم سازشوں کے نتیجے میں پاکستان کے عدم استحکام سے دوچارـ ہونے کی صورت میں حساس قومی اثاثوں پر کنٹرول امریکی عزائم کا آئینہ دار قرار دیتی ہے تاکہ پاکستان اپنے دفاع کیلئے ایٹمی اور میزائل صالحیت استعمال نہ کرسکے۔ امریکہ عراق سے بعض مخصوص ہتھیار اور بلٹ پروف گاڑیاں بھی پاکستان منتقل کر رہا ہے جنہیں وہ پاک فوج کے حوالے کرنے سے اس بنا پر انکاری ہے کہ پاکستان انہیں بھارت کے خالف استعمال کرسکتا ہے۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایسے ہتھیار بلیک واٹر کے گرگوں اور امریکی میرینز کیلئے آرہے ہیں جنہیں وہ پاکستانی مفادات کے خالف بھی استعمال کرسکتے ہیں لہٰ ذا ہر محب وطن شہری کی خواہش ہے کہ حکومت پاکستان خود ہی وضاحتیں کرنے اور بلیک واٹر یا ایکس ای نامی تنظیم کے اہلکاروں کی موجودگی کی تردید کرنے اور سفارت خانے میں توسیع کو معمول کی کارروائیاں ثابت کرنے کے بجائے پاکستانی عوام کے جذبات کا عظمی کو کسی مشکل میں ڈالنے کے بجائے خود ہی امریکہ کو اٹھارہٰ احساس کرے اور عدالت ایکڑ مزید اراضی االٹ کرنے اور بعض عرب و خلیجی ممالک کو الکھوں ایکڑ اراضی لیز پر دینے کے فیصلوں پر نظرثانی کرے آخر امریکہ کو اچانک سفارت خانے میں توسیع اور 201گھر کرایہ پر لینے کی ضرورت کیوں پیش آگئی اور جب پاک فوج نے آپریشن کے ذریعے دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے تو عراق سے ہتھیار پاکستان کیوں منتقل کئے جا رہے ہیں ملک کے طول و عرض میں اڈے بنانے ،پہلے سے موجود ہوائی اڈوں پر قبضہ جمانے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرنے کے مقاصد واضح ہیں لیکن حکومت پاکستان محض امریکی امداد اور قرضوں کی مجبوری کے تحت عوام اور سیاسی و عظمی میں رٹ فائل ٰ مذہبی جماعتوں کوشک و شبہ میں مبتال کر رہی ہے اور اب نوبت عدالت عظمی میں کیس کی سماعت کے دوران بہت سے ٰ کرنے تک پہنچ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عدالت ایسے معامالت بھی زیر بحث آ سکتے ہیں جن پر بحث مباحثہ ہمارے قومی مفاد میں نہیں اس لئے حکومت قبل ازوقت کارروائی کرکے نہ صرف عوامی جذبات کی تسکین کرے بلکہ عدالت عظمی کو بھی آزمائش سے نکالے یہی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کا تقاضہ ہے۔ ٰ