بانو قدسیہ کو لکھتے ہوئے اب پانچ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اردو اور پنجابی، وہ دونوں کی زبانوں میں لکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے جو اب ستائیس کے لگ بھگ کتابوں پر مشتمل ہیں۔ اردو پڑھنے والا کون ہو گا جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ بانو قدسیہ نے افسانوں ، ڈراموں اور ناول کی صورت میں ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ حکومت پاکستان نے 1983ءمیں بانو قدسیہ کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز (برائے ادب ) دیا جو کہ حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے ۔
بانو قدسیہ عورت کے بارے میں قدامت پسند خیالات کی حامل ہیں اور جدید عورت کی مرد سے برابری اور روایتی کردار سے باہر نکلنے کی کوشش ان کی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم بانو قدسیہ نے جہاں جہاں عورت کے کردار کی وضاحت کی ہے وہاں ان کا بیانیہ خاصا زور دار ہے۔ ان کے خیالات شاید سبھی لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔
بانو قدسیہ کو لکھتے ہوئے اب پانچ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اردو اور پنجابی، وہ دونوں کی زبانوں میں لکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے جو اب ستائیس کے لگ بھگ کتابوں پر مشتمل ہیں۔ اردو پڑھنے والا کون ہو گا جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ بانو قدسیہ نے افسانوں ، ڈراموں اور ناول کی صورت میں ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ حکومت پاکستان نے 1983ءمیں بانو قدسیہ کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز (برائے ادب ) دیا جو کہ حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے ۔
بانو قدسیہ عورت کے بارے میں قدامت پسند خیالات کی حامل ہیں اور جدید عورت کی مرد سے برابری اور روایتی کردار سے باہر نکلنے کی کوشش ان کی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم بانو قدسیہ نے جہاں جہاں عورت کے کردار کی وضاحت کی ہے وہاں ان کا بیانیہ خاصا زور دار ہے۔ ان کے خیالات شاید سبھی لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔
بانو قدسیہ کو لکھتے ہوئے اب پانچ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اردو اور پنجابی، وہ دونوں کی زبانوں میں لکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے جو اب ستائیس کے لگ بھگ کتابوں پر مشتمل ہیں۔ اردو پڑھنے والا کون ہو گا جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ بانو قدسیہ نے افسانوں ، ڈراموں اور ناول کی صورت میں ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ حکومت پاکستان نے 1983ءمیں بانو قدسیہ کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز (برائے ادب ) دیا جو کہ حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے ۔
بانو قدسیہ عورت کے بارے میں قدامت پسند خیالات کی حامل ہیں اور جدید عورت کی مرد سے برابری اور روایتی کردار سے باہر نکلنے کی کوشش ان کی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم بانو قدسیہ نے جہاں جہاں عورت کے کردار کی وضاحت کی ہے وہاں ان کا بیانیہ خاصا زور دار ہے۔ ان کے خیالات شاید سبھی لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔