’’آپ کا صفحہ‘‘،روزنامہ جنگ،کراچی
اشاعت : 14تا 20 اکتوبر2018ء
جمیل صاحب کا مشہور صبر!
وعلیکم السلام، ؒ دعائیں !
اپنے بچپنے سے سُنتااورپڑھتا آرہا ہوں ،کہ:’’اللہ ! تمہیں صبرِ جمیل عطا فرمائے!‘‘ ،اب خادم ملک کو یہ اعتراض اُٹھانا چاہئے کہ لوگ باگ ایسے مواقع پر ’’صبرِ ایّوب ؑ ‘‘ کا حوالہ کیوں نھیں دیا کرتے ،کہ اللہ تمہیں صبرِ ایوب عطا فرمائے؟ خیر ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے تمام ’’گزیدگان ‘‘ اور ’’متاثرین‘‘و ’’محرومین ‘‘ و ’’مجبورین‘‘ اور’’منکرین ‘‘ اور ’’مفسدین‘‘اور’’شیاطین‘‘و ’’ رحامین ‘‘ و ’’خیر خواہانان ‘‘ و ’’ پیارین‘‘ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ بندے پہ ’’نظر‘‘ و ’’نذر‘‘ کا اہتمام فرماتے ہیں ، دراصل ’’بڑھاپا‘‘ایک ایسا ’’کھلواڑ‘‘ہے ،کہ جسے رانڈ پنا یا بیوگی مزید دو آتشہ کردے ہئے ( اللہ معاف کرے ) ،تو میرے عزیزو، میرے کوچۂ دل کے باسیو ،مع کرائے دارو، جس طرح آپ اس خاکی سے محبت و الفت پیہم کا اظہار فرماتے ہیں ، بندہ مجبورِ الفاظ ہے کہ کس طور آپ کی محبتوں اور ریاضتوں ( مع برائیوں کے بھی) کا جوابی جواب دے کیونکہ آپ لوگ ماننے والے تو ہیں نھیں ، جواب میں پھر جواب دیں گے ،یوں نرجس بیٹی ہم سب پہ پہلے ہی اُدھار چبائے بیٹھی ہے،ہاہاہاہا،وہ مکمل ’’پابندئ پرنٹنگ‘‘ کا ’’ٹیگ‘‘ کردے گی تے :’’فیر کی ہوئے گا چوہدری صیب ؟؟ ‘‘
اسی لئے کہتا ہوں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘صرف نام کا ’’ہائڈ پارک‘‘ہے، خدا قسم ہم نے تو آج تک ’’اصلی والے ہائڈ پارک‘‘ میں کسی کو ہاتھ میں ہنٹر لئے کسی بولنے والے’’بابا‘‘کے پیچھے لٹھ پونگا لئے پھرتے نھیں دیکھا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،بھائی ۔۔۔جب شادی بہت پرانی ہوجاتی ہے بیٹے تو پھر دُنیا کی ذلّت ، ذلّت نھیں لگا کرتی، اعزاز لگتی ہے،تو میرے بچّو! ہمیشہ خوش،سلامت،فعال،مالا مال رہو، آمین!! سنڈے میگزین کی محفلوں کو یُوں ہی دائم آباد رکھو، کل کلاں کو ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیسا ہوگا ! یہ تو دنیا کا ’’آئین‘‘(دستور) ہئی ہے !
اور سنائیے ! کیسی گزر رہی ہے ؟بقولِ نظیر اکبر آبادی: گزر گئی گزران ، کیا جھونپڑی کیا میدان
۱۴؍ اکتوبر کا ’’ سنڈے میگزین ‘‘ طلوع ہوا تو دنیا نے دیکھا، سرورق کی تو مجھے بہت کم سمجھ آتی ہے، خدا جانے عالیہ کو کیا کچھ سمجھ آجاتا ہے کہ ایک منجھا ہوا ’’رائٹ اپ ‘‘ لکھ دیتی ہیں، جزاک اللہ بیٹی !! خیر اس ہفتہ کی بچّی نے دوپٹہ محض ایک غیر ضروری’’کپڑا‘‘ سمجھا، کبھی ٹانگ پر، کبھی ہاتھ پر، کبھی کلائی پر اور کبھی قریبی درخت کی شاخ پر ٹانگ دیا ، سر سے اوڑھنا اُس نے ابھی نھیں سیکھا تھا، ساری غلطی فوٹوگرافر کی تھی، اُس دُکھیا کو پہلے دوپٹہ اوڑھ کر ،لپیٹ کر، شرما کر دکھانا چاہئے تھا، ہاہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔۔سرچشمۂ ہدایت پڑھ کر تو ہم محمود میاں پر رشک کرتے ہیں کہ اللہ پاک ان سے کیسی عظیم نیکی کا نُور پھیلوا رہا ہے، اس ہفتہ ’’خطیبِ رسول اللہ ﷺ،حضرت ثابت بن قیسؓ ‘‘ سے متعلق لکھا اور خُوب لکھا، مزا آگیا پڑھ کر، طاہر حبیب اور اختر سردار ،دونوں نے ’’کچرے‘‘سے متعلق لکھا لیکن دونوں کی تحریروں کے رجحانات میں واضح فرق تھا ،طاہر حبیب نے ’’تجزیہ ‘‘ پیش کیا ، جبکہ اختر سردار نے ’’ دردِ دل‘‘ بیان کیا،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خانزادہ لیاقت علی خان پر تحریر بھی عمدہ ہے، کمال حیرت ہے کہ قائد ملّت کی شہادت کو سڑسٹھ برس گزر گئے ، گویا وقت پَر لگائے محوِ پرواز ہے، اللہ ان کی روح کو مزید نوازشوں کے سایوں میں رکھے ، آمین اور ان تمام نیک اور مخلص راہ نماؤں کا ٹھکانا اعلیٰ علیین میں بنائے، آمین ! نجم الحسن عطا کہنہ مشق صحافی ہیں ، اس ہفتہ ملکی تحفظ اور بقائے جمہور کے لئے ’’پُر فکر‘‘ تحریر لائے ہیں ، تحریر کا ابتدائیہ بھی دل موہ لینے والا ہے اور مضمون آہستہ آہستہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا جاتا ہے، بعضے جملے بڑے گہرے اور فقرے کاٹ دار ہیں ، لیکن ان بے شرمو کو کیا غرض ،غیر ضروری ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام مرے یا جئے ؟؟ان کی تجارت نما سیاست چلنا چاہئے بس !!
اپنی اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ !!عصمت علی کامران نے اسرائیل انصاری صاحب کے ساتھ مل کر محمد ابراہیم کا انٹرویو پیش کرکے کمال کام کیا ہے، اس قدر خوبصورت اور جامع انٹرویو اس سے پہلے ایک خاتون کا تھا، جنھوں نے قرآن کاڑھا تھا، سوئی دھاگے سے ،اور اب یہ بلوچستان کے محمد ابراہیم صاحب کا انٹرویو کمال چیز ہے، سبحان اللہ !!
منور راج پُوت ’’صحرائے تھر‘‘ کو ’’ کالا سونا‘‘ کہتے ہوئے آئے اور بڑی طویل لیکن عمدہ و مفید ’’رپورٹ ‘‘ پیش کی، رپورٹ لکھنا اس لحاظ سے بھی مشکل فن ہے کہ اس میں ہر مزاج کے قاری کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ، ان میں عوام بھی ہوتے ہیں اور خواص (یعنی پروفیسرز اور بیوگان بھی، ہاہا)تو منور نے تمام ’’کیڈرز‘‘کا بھرپور خیال رکھا ۔اے شاباشے !!! ’’ہیلتھ و فٹنس ‘‘میرا پسندیدہ صفحہ ہوا کرتا ہے، اس مرتبہ ہڈیوں کی ب
’’آپ کا صفحہ‘‘،روزنامہ جنگ،کراچی
اشاعت : 14تا 20 اکتوبر2018ء
جمیل صاحب کا مشہور صبر!
وعلیکم السلام، ؒ دعائیں !
اپنے بچپنے سے سُنتااورپڑھتا آرہا ہوں ،کہ:’’اللہ ! تمہیں صبرِ جمیل عطا فرمائے!‘‘ ،اب خادم ملک کو یہ اعتراض اُٹھانا چاہئے کہ لوگ باگ ایسے مواقع پر ’’صبرِ ایّوب ؑ ‘‘ کا حوالہ کیوں نھیں دیا کرتے ،کہ اللہ تمہیں صبرِ ایوب عطا فرمائے؟ خیر ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے تمام ’’گزیدگان ‘‘ اور ’’متاثرین‘‘و ’’محرومین ‘‘ و ’’مجبورین‘‘ اور’’منکرین ‘‘ اور ’’مفسدین‘‘اور’’شیاطین‘‘و ’’ رحامین ‘‘ و ’’خیر خواہانان ‘‘ و ’’ پیارین‘‘ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ بندے پہ ’’نظر‘‘ و ’’نذر‘‘ کا اہتمام فرماتے ہیں ، دراصل ’’بڑھاپا‘‘ایک ایسا ’’کھلواڑ‘‘ہے ،کہ جسے رانڈ پنا یا بیوگی مزید دو آتشہ کردے ہئے ( اللہ معاف کرے ) ،تو میرے عزیزو، میرے کوچۂ دل کے باسیو ،مع کرائے دارو، جس طرح آپ اس خاکی سے محبت و الفت پیہم کا اظہار فرماتے ہیں ، بندہ مجبورِ الفاظ ہے کہ کس طور آپ کی محبتوں اور ریاضتوں ( مع برائیوں کے بھی) کا جوابی جواب دے کیونکہ آپ لوگ ماننے والے تو ہیں نھیں ، جواب میں پھر جواب دیں گے ،یوں نرجس بیٹی ہم سب پہ پہلے ہی اُدھار چبائے بیٹھی ہے،ہاہاہاہا،وہ مکمل ’’پابندئ پرنٹنگ‘‘ کا ’’ٹیگ‘‘ کردے گی تے :’’فیر کی ہوئے گا چوہدری صیب ؟؟ ‘‘
اسی لئے کہتا ہوں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘صرف نام کا ’’ہائڈ پارک‘‘ہے، خدا قسم ہم نے تو آج تک ’’اصلی والے ہائڈ پارک‘‘ میں کسی کو ہاتھ میں ہنٹر لئے کسی بولنے والے’’بابا‘‘کے پیچھے لٹھ پونگا لئے پھرتے نھیں دیکھا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،بھائی ۔۔۔جب شادی بہت پرانی ہوجاتی ہے بیٹے تو پھر دُنیا کی ذلّت ، ذلّت نھیں لگا کرتی، اعزاز لگتی ہے،تو میرے بچّو! ہمیشہ خوش،سلامت،فعال،مالا مال رہو، آمین!! سنڈے میگزین کی محفلوں کو یُوں ہی دائم آباد رکھو، کل کلاں کو ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیسا ہوگا ! یہ تو دنیا کا ’’آئین‘‘(دستور) ہئی ہے !
اور سنائیے ! کیسی گزر رہی ہے ؟بقولِ نظیر اکبر آبادی: گزر گئی گزران ، کیا جھونپڑی کیا میدان
۱۴؍ اکتوبر کا ’’ سنڈے میگزین ‘‘ طلوع ہوا تو دنیا نے دیکھا، سرورق کی تو مجھے بہت کم سمجھ آتی ہے، خدا جانے عالیہ کو کیا کچھ سمجھ آجاتا ہے کہ ایک منجھا ہوا ’’رائٹ اپ ‘‘ لکھ دیتی ہیں، جزاک اللہ بیٹی !! خیر اس ہفتہ کی بچّی نے دوپٹہ محض ایک غیر ضروری’’کپڑا‘‘ سمجھا، کبھی ٹانگ پر، کبھی ہاتھ پر، کبھی کلائی پر اور کبھی قریبی درخت کی شاخ پر ٹانگ دیا ، سر سے اوڑھنا اُس نے ابھی نھیں سیکھا تھا، ساری غلطی فوٹوگرافر کی تھی، اُس دُکھیا کو پہلے دوپٹہ اوڑھ کر ،لپیٹ کر، شرما کر دکھانا چاہئے تھا، ہاہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔۔سرچشمۂ ہدایت پڑھ کر تو ہم محمود میاں پر رشک کرتے ہیں کہ اللہ پاک ان سے کیسی عظیم نیکی کا نُور پھیلوا رہا ہے، اس ہفتہ ’’خطیبِ رسول اللہ ﷺ،حضرت ثابت بن قیسؓ ‘‘ سے متعلق لکھا اور خُوب لکھا، مزا آگیا پڑھ کر، طاہر حبیب اور اختر سردار ،دونوں نے ’’کچرے‘‘سے متعلق لکھا لیکن دونوں کی تحریروں کے رجحانات میں واضح فرق تھا ،طاہر حبیب نے ’’تجزیہ ‘‘ پیش کیا ، جبکہ اختر سردار نے ’’ دردِ دل‘‘ بیان کیا،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خانزادہ لیاقت علی خان پر تحریر بھی عمدہ ہے، کمال حیرت ہے کہ قائد ملّت کی شہادت کو سڑسٹھ برس گزر گئے ، گویا وقت پَر لگائے محوِ پرواز ہے، اللہ ان کی روح کو مزید نوازشوں کے سایوں میں رکھے ، آمین اور ان تمام نیک اور مخلص راہ نماؤں کا ٹھکانا اعلیٰ علیین میں بنائے، آمین ! نجم الحسن عطا کہنہ مشق صحافی ہیں ، اس ہفتہ ملکی تحفظ اور بقائے جمہور کے لئے ’’پُر فکر‘‘ تحریر لائے ہیں ، تحریر کا ابتدائیہ بھی دل موہ لینے والا ہے اور مضمون آہستہ آہستہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا جاتا ہے، بعضے جملے بڑے گہرے اور فقرے کاٹ دار ہیں ، لیکن ان بے شرمو کو کیا غرض ،غیر ضروری ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام مرے یا جئے ؟؟ان کی تجارت نما سیاست چلنا چاہئے بس !!
اپنی اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ !!عصمت علی کامران نے اسرائیل انصاری صاحب کے ساتھ مل کر محمد ابراہیم کا انٹرویو پیش کرکے کمال کام کیا ہے، اس قدر خوبصورت اور جامع انٹرویو اس سے پہلے ایک خاتون کا تھا، جنھوں نے قرآن کاڑھا تھا، سوئی دھاگے سے ،اور اب یہ بلوچستان کے محمد ابراہیم صاحب کا انٹرویو کمال چیز ہے، سبحان اللہ !!
منور راج پُوت ’’صحرائے تھر‘‘ کو ’’ کالا سونا‘‘ کہتے ہوئے آئے اور بڑی طویل لیکن عمدہ و مفید ’’رپورٹ ‘‘ پیش کی، رپورٹ لکھنا اس لحاظ سے بھی مشکل فن ہے کہ اس میں ہر مزاج کے قاری کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ، ان میں عوام بھی ہوتے ہیں اور خواص (یعنی پروفیسرز اور بیوگان بھی، ہاہا)تو منور نے تمام ’’کیڈرز‘‘کا بھرپور خیال رکھا ۔اے شاباشے !!! ’’ہیلتھ و فٹنس ‘‘میرا پسندیدہ صفحہ ہوا کرتا ہے، اس مرتبہ ہڈیوں کی ب
’’آپ کا صفحہ‘‘،روزنامہ جنگ،کراچی
اشاعت : 14تا 20 اکتوبر2018ء
جمیل صاحب کا مشہور صبر!
وعلیکم السلام، ؒ دعائیں !
اپنے بچپنے سے سُنتااورپڑھتا آرہا ہوں ،کہ:’’اللہ ! تمہیں صبرِ جمیل عطا فرمائے!‘‘ ،اب خادم ملک کو یہ اعتراض اُٹھانا چاہئے کہ لوگ باگ ایسے مواقع پر ’’صبرِ ایّوب ؑ ‘‘ کا حوالہ کیوں نھیں دیا کرتے ،کہ اللہ تمہیں صبرِ ایوب عطا فرمائے؟ خیر ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے تمام ’’گزیدگان ‘‘ اور ’’متاثرین‘‘و ’’محرومین ‘‘ و ’’مجبورین‘‘ اور’’منکرین ‘‘ اور ’’مفسدین‘‘اور’’شیاطین‘‘و ’’ رحامین ‘‘ و ’’خیر خواہانان ‘‘ و ’’ پیارین‘‘ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ بندے پہ ’’نظر‘‘ و ’’نذر‘‘ کا اہتمام فرماتے ہیں ، دراصل ’’بڑھاپا‘‘ایک ایسا ’’کھلواڑ‘‘ہے ،کہ جسے رانڈ پنا یا بیوگی مزید دو آتشہ کردے ہئے ( اللہ معاف کرے ) ،تو میرے عزیزو، میرے کوچۂ دل کے باسیو ،مع کرائے دارو، جس طرح آپ اس خاکی سے محبت و الفت پیہم کا اظہار فرماتے ہیں ، بندہ مجبورِ الفاظ ہے کہ کس طور آپ کی محبتوں اور ریاضتوں ( مع برائیوں کے بھی) کا جوابی جواب دے کیونکہ آپ لوگ ماننے والے تو ہیں نھیں ، جواب میں پھر جواب دیں گے ،یوں نرجس بیٹی ہم سب پہ پہلے ہی اُدھار چبائے بیٹھی ہے،ہاہاہاہا،وہ مکمل ’’پابندئ پرنٹنگ‘‘ کا ’’ٹیگ‘‘ کردے گی تے :’’فیر کی ہوئے گا چوہدری صیب ؟؟ ‘‘
اسی لئے کہتا ہوں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘صرف نام کا ’’ہائڈ پارک‘‘ہے، خدا قسم ہم نے تو آج تک ’’اصلی والے ہائڈ پارک‘‘ میں کسی کو ہاتھ میں ہنٹر لئے کسی بولنے والے’’بابا‘‘کے پیچھے لٹھ پونگا لئے پھرتے نھیں دیکھا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،بھائی ۔۔۔جب شادی بہت پرانی ہوجاتی ہے بیٹے تو پھر دُنیا کی ذلّت ، ذلّت نھیں لگا کرتی، اعزاز لگتی ہے،تو میرے بچّو! ہمیشہ خوش،سلامت،فعال،مالا مال رہو، آمین!! سنڈے میگزین کی محفلوں کو یُوں ہی دائم آباد رکھو، کل کلاں کو ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیسا ہوگا ! یہ تو دنیا کا ’’آئین‘‘(دستور) ہئی ہے !
اور سنائیے ! کیسی گزر رہی ہے ؟بقولِ نظیر اکبر آبادی: گزر گئی گزران ، کیا جھونپڑی کیا میدان
۱۴؍ اکتوبر کا ’’ سنڈے میگزین ‘‘ طلوع ہوا تو دنیا نے دیکھا، سرورق کی تو مجھے بہت کم سمجھ آتی ہے، خدا جانے عالیہ کو کیا کچھ سمجھ آجاتا ہے کہ ایک منجھا ہوا ’’رائٹ اپ ‘‘ لکھ دیتی ہیں، جزاک اللہ بیٹی !! خیر اس ہفتہ کی بچّی نے دوپٹہ محض ایک غیر ضروری’’کپڑا‘‘ سمجھا، کبھی ٹانگ پر، کبھی ہاتھ پر، کبھی کلائی پر اور کبھی قریبی درخت کی شاخ پر ٹانگ دیا ، سر سے اوڑھنا اُس نے ابھی نھیں سیکھا تھا، ساری غلطی فوٹوگرافر کی تھی، اُس دُکھیا کو پہلے دوپٹہ اوڑھ کر ،لپیٹ کر، شرما کر دکھانا چاہئے تھا، ہاہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔۔سرچشمۂ ہدایت پڑھ کر تو ہم محمود میاں پر رشک کرتے ہیں کہ اللہ پاک ان سے کیسی عظیم نیکی کا نُور پھیلوا رہا ہے، اس ہفتہ ’’خطیبِ رسول اللہ ﷺ،حضرت ثابت بن قیسؓ ‘‘ سے متعلق لکھا اور خُوب لکھا، مزا آگیا پڑھ کر، طاہر حبیب اور اختر سردار ،دونوں نے ’’کچرے‘‘سے متعلق لکھا لیکن دونوں کی تحریروں کے رجحانات میں واضح فرق تھا ،طاہر حبیب نے ’’تجزیہ ‘‘ پیش کیا ، جبکہ اختر سردار نے ’’ دردِ دل‘‘ بیان کیا،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خانزادہ لیاقت علی خان پر تحریر بھی عمدہ ہے، کمال حیرت ہے کہ قائد ملّت کی شہادت کو سڑسٹھ برس گزر گئے ، گویا وقت پَر لگائے محوِ پرواز ہے، اللہ ان کی روح کو مزید نوازشوں کے سایوں میں رکھے ، آمین اور ان تمام نیک اور مخلص راہ نماؤں کا ٹھکانا اعلیٰ علیین میں بنائے، آمین ! نجم الحسن عطا کہنہ مشق صحافی ہیں ، اس ہفتہ ملکی تحفظ اور بقائے جمہور کے لئے ’’پُر فکر‘‘ تحریر لائے ہیں ، تحریر کا ابتدائیہ بھی دل موہ لینے والا ہے اور مضمون آہستہ آہستہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا جاتا ہے، بعضے جملے بڑے گہرے اور فقرے کاٹ دار ہیں ، لیکن ان بے شرمو کو کیا غرض ،غیر ضروری ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام مرے یا جئے ؟؟ان کی تجارت نما سیاست چلنا چاہئے بس !!
اپنی اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ !!عصمت علی کامران نے اسرائیل انصاری صاحب کے ساتھ مل کر محمد ابراہیم کا انٹرویو پیش کرکے کمال کام کیا ہے، اس قدر خوبصورت اور جامع انٹرویو اس سے پہلے ایک خاتون کا تھا، جنھوں نے قرآن کاڑھا تھا، سوئی دھاگے سے ،اور اب یہ بلوچستان کے محمد ابراہیم صاحب کا انٹرویو کمال چیز ہے، سبحان اللہ !!
منور راج پُوت ’’صحرائے تھر‘‘ کو ’’ کالا سونا‘‘ کہتے ہوئے آئے اور بڑی طویل لیکن عمدہ و مفید ’’رپورٹ ‘‘ پیش کی، رپورٹ لکھنا اس لحاظ سے بھی مشکل فن ہے کہ اس میں ہر مزاج کے قاری کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ، ان میں عوام بھی ہوتے ہیں اور خواص (یعنی پروفیسرز اور بیوگان بھی، ہاہا)تو منور نے تمام ’’کیڈرز‘‘کا بھرپور خیال رکھا ۔اے شاباشے !!! ’’ہیلتھ و فٹنس ‘‘میرا پسندیدہ صفحہ ہوا کرتا ہے، اس مرتبہ ہڈیوں کی ب
جمیل صاحب کا مشہور صبر! وعلیکم السالم ؒ ،دعائیں ! صبر جمیل عطا ِ سنتااورپڑھتا آرہا ہوں ،کہ’’:ہللا ! تمہیں اپنے بچپنے سے ُ فرمائے!‘‘ ،اب خادم ملک کو یہ اعتراض اُٹھانا چاہئے کہ لوگ باگ ایسے مواقع صبر ایوب عطا ِ صبر ایّوب ؑ ‘‘ کا حوالہ کیوں نھیں دیا کرتے ،کہ ہللا تمہیںپر ’’ ِ فرمائے؟ خیر ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے تمام ’’گزیدگان ‘‘ اور ’’متاثرین‘‘و ’’محرومین ‘‘ و ’’مجبورین‘‘ اور’’منکرین ‘‘ اور ’’مفسدین‘‘اور’’شیاطین‘‘و ’’ رحامین ‘‘ و ’’خیر خواہانان ‘‘ و ’’ پیارین‘‘ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ بندے پہ ’’نظر‘‘ و ’’نذر‘‘ کا اہتمام فرماتے ہیں ،دراصل ’’بڑھاپا‘‘ایک ایسا ’’کھلواڑ‘‘ ہے ،کہ جسے رانڈ پنا یا بیوگی مزید دو آتشہ کردے ہئے ( ہللا معاف کرے ) ،تو میرے عزیزو ،میرے کوچۂ دل کے باسیو ،مع کرائے دارو ،جس مجبور ِ طرح آپ اس خاکی سے محبت و الفت پیہم کا اظہار فرماتے ہیں ،بندہ الفاظ ہے کہ کس طور آپ کی محبتوں اور ریاضتوں ( مع برائیوں کے بھی) کا جوابی جواب دے کیونکہ آپ لوگ ماننے والے تو ہیں نھیں ،جواب میں پھر جواب دیں گے ،یوں نرجس بیٹی ہم سب پہ پہلے ہی اُدھار چبائے بیٹھی ہے،ہاہاہاہا،وہ مکمل ’’پابندئ پرنٹنگ‘‘ کا ’’ٹیگ‘‘ کردے گی تے ’’:فیر کی ہوئے گا چوہدری صیب ؟؟ ‘‘ اسی لئے کہتا ہوں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘صرف نام کا ’’ہائڈ پارک‘‘ہے ،خدا قسم ہم نے تو آج تک ’’اصلی والے ہائڈ پارک‘‘ میں کسی کو ہاتھ میں ہنٹر لئے کسی بولنے والے’’بابا‘‘کے پیچھے لٹھ پونگا لئے پھرتے نھیں دیکھا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،بھائی ۔۔۔جب شادی بہت پرانی ہوجاتی ہے بیٹے تو پھر دُنیا کی ذلّت ،ذلّت نھیں لگا کرتی ،اعزاز لگتی ہے،تو میرے ب ّچو! ہمیشہ خوش،سالمت،فعال،ماال مال رہو ،آمین!! سنڈے میگزین کی محفلوں کو یُوں ہی دائم آباد رکھو ،کل کالں کو ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیسا ہوگا ! یہ تو دنیا کا ’’آئین‘‘(دستور) ہئی ہے ! اور سنائیے ! کیسی گزر رہی ہے ؟بقو ِل نظیر اکبر آبادی : گزر گئی گزران ، کیا جھونپڑی کیا میدان ۱۴؍ اکتوبر کا ’’ سنڈے میگزین ‘‘ طلوع ہوا تو دنیا نے دیکھا ،سرورق کی تو مجھے بہت کم سمجھ آتی ہے ،خدا جانے عالیہ کو کیا کچھ سمجھ آجاتا ہے کہ ایک منجھا ہوا ’’رائٹ اپ ‘‘ لکھ دیتی ہیں ،جزاک ہللا بیٹی !! خیر اس ہفتہ کی ب ّچی نے دوپٹہ محض ایک غیر ضروری’’کپڑا‘‘ سمجھا ،کبھی ٹانگ پر ،کبھی ہاتھ پر ،کبھی کالئی پر اور کبھی قریبی درخت کی شاخ پر ٹانگ دیا ،سر سے اوڑھنا اُس نے ابھی نھیں سیکھا تھا ،ساری غلطی فوٹوگرافر کی تھی ،اُس دُکھیا کو پہلے دوپٹہ اوڑھ کر ،لپیٹ کر ،شرما کر دکھانا چاہئے تھا، ہاہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔۔سرچشمۂ ہدایت پڑھ کر تو ہم محمود میاں پر رشک کرتے ہیں کہ ہللا پاک ان سے کیسی عظیم نیکی کا نُور پھیلوا رہا ہے ،اس ہفتہ ’’خطی ِ ب قیس ‘‘ سے متعلق لکھا اور ُخوب لکھا ،مزا آگیا رسول ہللا ﷺ،حضرت ثابت بن ؓ پڑھ کر ،طاہر حبیب اور اختر سردار ،دونوں نے ’’کچرے‘‘سے متعلق لکھا لیکن دونوں کی تحریروں کے رجحانات میں واضح فرق تھا ،طاہر حبیب نے ’’تجزیہ ‘‘ پیش کیا ،جبکہ اختر سردار نے ’’ در ِد دل‘‘ بیان کیا،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خانزادہ لیاقت علی خان پر تحریر بھی عمدہ ہے ،کمال حیرت ہے کہ قائد ملّت کی شہادت کو سڑسٹھ برس گزر گئے ،گویا وقت َپر لگائے مح ِو پرواز ہے ،ہللا ان کی روح کو مزید نوازشوں کے سایوں میں رکھے ،آمین اور اعلی علیین میں بنائے ،آمین ! نجم ٰ ان تمام نیک اور مخلص راہ نماؤں کا ٹھکانا الحسن عطا کہنہ مشق صحافی ہیں ،اس ہفتہ ملکی تحفظ اور بقائے جمہور کے لئے ’’پُر فکر‘‘ تحریر الئے ہیں ،تحریر کا ابتدائیہ بھی دل موہ لینے واال ہے اور مضمون آہست ہ آہستہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا جاتا ہے ،بعضے جملے بڑے گہرے اور فقرے کاٹ دار ہیں ،لیکن ان بے شرمو کو کیا غرض ،غیر ضروری ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام مرے یا جئے ؟؟ان کی تجارت نما سیاست چلنا چاہئے بس !! اپنی اپنی ڈفلی ،اپنا اپنا راگ !!عصمت علی کامران نے اسرائیل انصاری صاحب کے ساتھ مل کر محمد ابراہیم کا انٹرویو پیش کرکے کمال کام کیا ہے، اس قدر خوبصورت اور جامع انٹرویو اس سے پہلے ایک خاتون کا تھا ،جنھوں نے قرآن کاڑھا تھا ،سوئی دھاگے سے ،اور اب یہ بلوچستان کے محمد ابراہیم صاحب کا انٹرویو کمال چیز ہے ،سبحان ہللا !! منور راج پُوت ’’صحرائے تھر‘‘ کو ’’ کاال سونا‘‘ کہتے ہوئے آئے اور بڑی طویل لیکن عمدہ و مفید ’’رپورٹ ‘‘ پیش کی ،رپورٹ لکھنا اس لحاظ سے بھی مشکل فن ہے کہ اس میں ہر مزاج کے قاری کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ،ان میں عوام بھی ہوتے ہیں اور خواص (یعنی پروفیسرز اور بیوگان بھی ،ہاہا)تو منور نے تمام ’’کیڈرز‘‘کا بھرپور خیال رکھا ۔اے شاباشے !!! ’’ہیلتھ و فٹنس ‘‘ میرا پسندیدہ صفحہ ہوا کرتا ہے ،اس مرتبہ ہڈیوں کی بوسیدگی پر دو عدد عمدہ جامع تحریریں پڑھنے کو ملیں ،لیکن ڈاکٹر صالحہ صاحبہ ،آپ کسی ’’کیلسیم سپلیمنٹ ‘‘کا نا م بھی لکھ دیتیں جو کسی قریبی میڈیکل اسٹور یا آغاخان میڈیکل سے مل جاتا ،دودھ تو بہترین غذا اور دوا ہئی ہے ،لیکن کچھ نئی دوائیں ان دنوں مارکیٹ میں چل رہی ہیں ،ان کے بارے میں ڈاکٹر لعل خان نے بھی کچھ نھیں لکھا،آج کل بدترین صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر ماہر استخواں بھاری بھاری فیسیں لے کر اور طویل قطاریں لگوا کر مریض کو اپنے اسسٹنٹ کے حوالے کردیتے ہیں جو اپنے اسمارٹ فون کے انٹرنیٹ پر تالش کر اُس درد کے مارے مریض کو نت نئی دوائیں ’’ٹھونک‘‘ دیا کرتا ہے ،توبہ توبہ ،خود ہم گذشتہ سترہ برسوں سے ہڈیوں کا عارضہ جھیل رہے ہیں ،دونوں پیروں کی ہڈیاں اوپر نیچے اور دائیں بائیں سے باہر آتی جارہی ہیں ،ذہن پر زور ڈالئے تو محترمہ پروفیسر انیتا غالم علی صاحبہ کا بھی یہی حال تھا کہ اُن کی انگلیوں کی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ،بڑے بڑے ’’ہڈّے‘‘ بن گئے تھے ،ہائے ہللا ! اس قدر اذیت ناک بیمار ی ہے کہ انسان جیتے جی معذور ہوجاتا ہے ،میں سمجھتا ہوں اس بیماری کے تدارکات میں سے ایک ،وزن نہایت مناسب ۔۔۲۔۔ یعنی کم رکھنا ہے ،دونوں معالجین کو عمر اور قد سے لحاظ سے ایک وزن کا چارٹ بھی دینا چاہئے تھا تاکہ اندازہ ہوتا کہ کتنی عمر کے مریض کو اپنی کس ہائٹ کے ساتھ کتنا وزن رکھنا ہے ؟؟ ’’نئی کتابوں ‘‘ میں شہزادہ اعجاز کی ’’راجپوت گوتیں ‘‘ کا تعارف پڑھ کر لطف آگیا ،مقامی بڑی اشاعتی کمپنی کا انسائکلو پیڈیا سترہ برسوں میں اپ لوڈ کرتے ،میں نے ایک کالم ’’کاسٹ (ذاتوں)‘‘ پر بھی مبنی رکھا ،اس انسائکلو پیڈیا کا ایڈیٹر انچیف میں خود تھا اور اب بھی انٹرنیٹ پر آپ قارئین ،میرا تن تنہا مرتب کردہ انسائکلو پیڈیا نما اُردو لغت ’’ ‘‘www.urduinc.comکو جانچ سکتے ہیں ،میری ان تھک محنت سے استفادہ کرسکتے ہیں ،میں نے پاکستانی قوم کی علمیت اور جامعیت کے سلسلے میں اکتالیس برس تدریس کی ،کتابیں لکھیں ،مقالہ بھرے ،محاکمہ کئے ،لیکن اس قوم نے مجھے نہ مان کر دیا ،محرومی کا یہ احساس پاکستانی دانشوران کے ساتھ قبر تک جاتا ہے ،ہمارے ُمردہ پرست معاشرے میں ’’زندہ‘‘کی قدر نھیں، زندہ پر پی ایچ ڈی نھیں ،مردہ پرست قوم ہے یہ ،نئی کتابیں کالم بہت بڑی نیکی اور نعمت ہے بیٹا ! کتابوں کی قیمتوں کو پَر لگ چکے ہیں ،اپنی ذاتی کتاب چھپوانا اس دور میں ایک عیاشی بنادی گئی ہے ،ہزارہا تحریریں ادیب کے ساتھ، محقق کے ساتھ دفنا دی جاتی ہیں اور معاشرہ ان پُر مغز تحاریر کا متحمل نھیں ہوپاتا’’ ،ناقاب ِل اشاعت‘‘ کا کالم میرا سب سے پسندیدہ کالم ہے ،خیر سے اس ہفتہ بھی ’’نظیر اکبر آبادی‘‘ کی میری طویل ترین نظم ،بلکہ نظمیہ ’’ کلجگ نھیں کرجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے ‘‘ ناقاب ِل اشاعت قرار پائی ،مبارک ہو ،اس ب ّچے کو اُردو آتی ہے جو تحریروں کو ’’ غیر قابل اشاعت ‘‘ قرار دیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا کچا ِ کرتا ہے جھٹ دینے سے ؟؟ منور مرزا پھر چٹھا کھول کر الئے اور قارئین کی آنکھیں کھول دیں ،ایک ایک حرف سے بہت کچھ ثابت کیا ،اُن دیرینہ دوریوں کا بھی بتادیا جو غریب پاکستان اور مالدار ممالک کے درمیان مانن ِد خلیج حائل ہیں ،ہائے میرا پیارا پاکستان ’’ ،پیارا گھر‘‘ تو ایک ٹھنڈا میٹھا ،پُرسکون ’’گھرانہ‘‘ ہوتا ہے ،فرحی نعیم ،اسماء ،عطیہ، طیبہ ،شاہین ،سبھی اپنی بہترین تحریریں الئے اور یُوں گھر کے در و بام سج گئے’’ ،رائتہ‘‘ اس لئے بھی زیادہ پسند آیا کہ ان دنوں کراچی گرمی اور لُو کی موسم سرما اپنےِ لپیٹ میں ہے کیونکہ اسی طراری کے بعد ’’خنکی‘‘ ہوگی اور گالبی َپر پھیال دے گا ،اسماء نے ’’مسنون دعائیں ‘‘ بہت عمدہ لکھی ہیں ، مسلمان مائیں اپنے ننھے بچوں کو یہ دعائیں پیار و محبت سے اور شوہر نامدار کو ڈنڈے کے زور پر یاد کرائیں ،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہا،دیکھو بیٹا ! جب شادی ’’ایکسپائر ڈیٹ‘‘ کی سرحد سے ٹکراتی ہے تو بابا اسی قماش کی بتیاں کرتا ہے ،اس میں بُرا نھیں مناتے بلکہ کھی کھی کھی کھی فرمایا کرتے ہیں ، سمجھیں !!! عطیہ نے مناسب الفاظ کا چناؤ لکھ کر ثابت کیا کہ وہ خود بھی نہایت محتاط گفتگو و تحریر کی قائل ہیں ۔’’ایک رشتہ ،ایک کہانی ‘‘ کی سبھی تحریریں محبت اور مروت کے پ ّکے ،پختہ رنگوں سے سجی سنوری ہوتی ہیں ،کوئی والدین کو منتخب کرتا ہے تو کوئی اساتذہ کرام کا شکر گزار نظر آتا ہے ،کوئی عزیز و اقارب کا ،لیکن میں نے کسی لکھاری کو ’’ نماز‘‘’’،قرآن‘‘ ، مصلی ‘‘ ’’ ،کعبہ‘‘’’ ،روضہ ‘‘’’،کتاب‘‘ ’’ ،قلم و ٰ ’’ حدیث ‘‘’’ ،مسجد‘‘’’ ، قرطاس ‘‘ یا کسی تحقیق یا مقالہ سے کوئی رشتہ ناتا جوڑتے اور اُس پر لکھتے نہ دیکھا ،نہ پڑھا’’ ،ہللا ‘‘ سے بندے کا رشتہ بھی یہ نوجوان لکھاری بہترین لکھ سکتے ہیں ،کیونکہ چالیس سال سے زائد تدریس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نوجوان طلبہ و طالبات کا اندر کا شاالمار اُن کے مذہبی عقائد پر تعمیر ہوتا ہے ،استاد جس نوع کا مل جائے تو بچہ اُسی رنگ میں رنگتا چال جاتا ہے ، خیر یہ باتیں ہیں غیروں کی ،ہم مسلمان ہیں ،ہمارے لئے اب شاید دنیا ہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کا سب سے عظیم المیہ یہ ہے کہ وہ اپنا اصل بھال چکے ہیں ، اقبال تو آنے سے رہا کہ : اپنا آپ فراموش کرچکے ہیں ،اب بیٹا ہر دور میں ؔ منتظر فردا ہو ‘‘ ِ ’’ تھے وہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو+ہاتھ پر ہاتھ دھرے نوجوا ن طالب علم تو علم و حکمت اور طاقت و ِبرنائی کا ایٹم بم ہوا کرتے ہیں، اگر نوجوان ملک و قوم کی ترقی اور بقا ء کے لئے ڈٹ جائیں ،اپنے دشمن کے سامنے سیسہ پالئی دیوار کی مانند ’’سینہ ِسپر‘‘ہوجائیں تو کیا مجال کہ ملک میں گرم ہوا بھی چل جائے ،اس وقت حال یہ ہے نرجس بیٹی کہ ملک کی کثیر آبادی شدید ترین منہگائی کے باعث نان شبینہ کی محتاج ہے ،اگر اس ملک سے غربت ختم کردی جائے تو تمام جرائم یکسر ختم ہوجائیں گے ۔سبیتا مشتاق نے ’’ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ !‘‘ پر لکھا اور منافقت کے اس عہد میں اخالقی بحران کو بیان کیا ’’،خاک ہوئے اب ہم کو منانے والے !! ‘‘ ڈائجسٹ کی دونوں کہانیاں اچھی رہیں ،ساتھ سمیع کی ننھی سی غزلیہ بھی پسند آئی ،ننھی منی بحر میں کاڑھی گئی عمدہ شاعری ،چونکہ اس شاعری کا موضوع ایک ہی ،یعنی’’ ،محبت‘‘ہے تو اسے ’’نظم‘‘ کہنا چاہئے تھا ،یہ غزل کس طور ہوگئی بھائی !!! ہاہاہاہا،یہ حال ہئے اس وخت اُردو کا ،میری ناک کے عین نیچے اُردو کو کوڑے مارے جارہے ہیں ،جب میں نے پیا چڈھی (پی ایچ ڈی) کی تو اُس وخت یہ حالیت تھی کہ دنیا بھر میں شور مچ گیا تھا کہ ’’ہئی ہے ،اے لُمڈا کس خدر ذہین اور مکار ہئے کہ چھپ چھپا کر ایسا شاند ار مقالہ چھپو لیابابو،کاہے چھپولیا!! ؟؟‘‘ ہاہاہا،مقالہ کے ایک ’’انٹرنیشنل ریفری بہاری بابو ‘‘ بھی تھے نا ہاہاہاہاہا،ہاہاہاہا،ہاہاہاہاہا ،اب سمجھا میں !!! لو بھئی اب تم چالؤ گی قینچی ،اور حیدر آباد دکن کی زبان میں ’’خینچی !! ‘‘ ’’آپ کا صفحہ ‘‘ کی تو کیا ہی بات ہے ب ھئی ،واہ واہ ،لفظ لفظ رنگیں ،سطر سطر حسیں ،سمیہ طاہر سے شرلی مرلی اور ،ارفع مغل تا کرن معاذ ( ای میلز) الجواب ،ہر خط ہر برسر پیکار، ِ جواب مستند ،کچھ دل کے پھپھولے ،کچھ آبلۂ قلب و جاں ،کچھ کچھ آئینہ دار ،ایک زندہ جیتی جاگتی دنیا آباد ہوا کرتی ہے ،میرے گھر میں ہر اتوار ،سبھی ،خوش سالمت فعال ماال مال ،ہر لحاظ سے آسودہ حال رہئے ،آمین !!السالم علیکم ؒ (پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی ،گل برگ ٹاؤن،کراچی) :cell www.facebook.com/proffhameedi
DAILY JANG , SUNDAY MAGAZINE "AAP KA SAFFHAA"(ISSUE:MAY 20th 2019) BY PROF DR SYED MUJEEB ZAFAR ANWAAR HAMEEDI , EX: MP-I EDUCATION ADVISER FOR FEDERAL DEPPT. OF EDUCATION AND EDUCATION & LITERACY DEPTT. GOVT OF SINDH. PAKISTAN
FIR FOR LOOTING PROF DR S MUJEEB ZAFAR ANWAR HAMEEDI EX MP-I EDUCATION ADVISER GOVT OF PAKISTAN IN KARACHI BUS BY PATTHAN DRIVER AND CONDUCTOR WHO ARE IN 4 L BUS KARACHI AT SADDAR STOPR BY 4L BUS DRIVER AND CONDUCTOR those who were drunk and were drinking wine
World Noted Pakistani Scholor Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex MP I Writes On SUNDAY MAGAZINE DAILY JANG KARACHI DATED 03 JUNE 2018 To Madam Narjis Malik Editor Sun Day
Aap Ka Safha Jang Sunday Magazine Editor Ms Narjis Malik Editor Daily Jang Karachi For 12th August 2018 Karachi by Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi