Escolar Documentos
Profissional Documentos
Cultura Documentos
دلیل نمبر:3
حضرت یعقوب علیہ السالم کا واقعہ:
ِي َ إ
ِن َالن ق ُوَ
ِظ َلح
َاف نا َلُ
ه َِّ
َإْ وَب
لعیْ
ََْ و َْ
تع ً َ
یر َدا
َا غ َن
معه َ ْسْ
ِلُ َر
أ
ْه
َُنْ عُم َْ
نت َأ
ُ و الذْ
ِئب لُ
ه َُ ْ
یأك ن َ َ
ُ أْ َاف َ
َأخ ِ و
ِهُوا بھبذَتْ
ن َ َ
ِي أْ ُُ
نن َح
ْز َلی
َ•
ُون ً َلخَاس
ِر ِذا
نا إَِّ
إ ٌَ
ة ْب
ُصُ ع ْن ََ
نح ُ و ه الذْ
ِئب لَََُ
ْ أكِنالوا َلئَ ُ
ن ق َافُ
ِلوَ غ
(سورۃ یوسف)12:
ِيَبِ أ َج
ْه لى و ََ
ه عُوُ َْلق
َأ ھَ
ذا ف ِي َ ِیص َم
ِقُوا ب ھبَْ
دوسری جگہ ہے :اذ
ً• (سورۃ یوسف)93: ِیرا بصْتِ َ
یأَ
سیدنا یعقوب علیہ السالم کا رونا اور آنکھوں کا سفید ہونا اسی وجہ سے کہ آپ علیہ
السالم کو سیدنا یوسف علیہ السالم نظر نہیں آئے اگر آنکھوں کے سامنے تھے توپھر پیار بھی کر
لیتے اور اتنا غمگین اور رونا سمجھ نہیں آتا۔
دلیل نمبر:4
موسی علیہ السالم کا واقعہ:
ٰ حضرت
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 8
ْ
ِنَا م ِیند َلق َْنا َلق ءَداََََا غ ِنه آت َاُ َت
لفَ ِ َالَا ق َز
َاو َّا ج لمََ
ف
َ َۃ ْ
َّخر َ َ َْ َ ْ َ َ
َأْ َ َ َ ً
َبا َ َ نا َ َِ
َرسَف
ِيإنِ فِ ِلى الص ینا إ ِذ أو یت إ قال أر ھذا نص
َ
ِیلُ
ه ََ
َاتخذ سَبَّ ه وَُ ُ ْ َ ْ َ
ْطان أن أذكر ُ َ َّ
ِالَّ الشی ِي إ َْ
ما أنسَان َََ و ُوت ْ
ُ الح ِیتنسَ
َاِمِھ لى َ
آثار ََ
دا ع َْ
تَّ َارِ ف ْغ
نبَّا َ ُن ما ك ِكَ ََل
َ ذ َالً ق َباَجِ ع ْرَح ِي ْ
الب ف
ً• (سورۃ الکہف)62:َصاَصق
موسی علیہ السالم سو گئے تھے او ر مچھلی پانی میں کود گئی۔ اس سے ٰ دیکھیے سیدنا
معلوم ہوتاہے کہ آپ علیہ السالم نے اسے جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ کھانا مانگتے ہی
کیوں ۔ کیوں کہ کھانا تو وہی مچھلی تھی جو زندہ ہوکر پانی میں چلی گئی۔
دلیل نمبر:5
حضرت سلیمان علیہ السالم کا واقعہ:
ْ
ِنن م َاَ ْ كَمد أ ھَ ھْ
دُ َى ْ
الُ َرِي ال أ ما ل َ َ َالَق
َ ف ْرَّی
د الط ََّ
َق ََ
تف و
ِيَن ْ
َأت
ِی َ
ْ لی َ
ه أو َّ
َنُ َْ
ْ ألذَ
بح َ
ِیدا أوً َ ً
َذابا شد َه ع َّ
بنُ َِ
َذِین ألعَ ِبَائ ْ
الغ
ِ
ِهْ بتحِط ْ َُا َلم ِمُ ب َح
َطت َ أ َال َق
ٍ ف ِید بعَ َ َی
ْر َ غَث
َكَمف ِینٍ مبَانٍ ُ ِسُْ
لط ب
ٍ• (سورۃ النمل)20:ِین إ َ
یق َب
ٍَ ِنإ بٍَْ سَب ِن ُكَ مْت
َجِئ
و
یہ بات اب صاف نص قطعی ہوگئی کہ سیدنا سلیمان علیہ السالم کی نظر مبارک سے ہدہد
اوجھل او رپوشیدہ تھا تبھی تو فرمایا کہ مجھے نظر نہیں آرہا۔ اب معلوم ہوگیا یہ کہنا کہ نبی کی
نظر سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے یہ نص قطعی کا انکار ہے۔
دلیل نمبر:6
حضرت زکریا علیہ السالم کا واقعہ:
َال
ٍ َ َلی َّاسَ َ
ثالث َ النِمَل
تكَالَّ ُ
ُكَ أ
یتَ آَ َالة قیً ِي آَ َل ل ْعَبِ اج َ رَالق
• (سورۃ مریم)10: ً
ِیا سَو
اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ سیدنا زکریا علیہ السالم نشانی مانگ رہے ہیں۔ ورنہ اگر اہل
بدعت کا قول سچا تھا تو پھر تو انہیں سب کچھ نظر آجائے گا کہ بچہ بن گیا اور اب پیدا ہونے
واال۔ معلوم ہوا کہ یہ سب اہ ِل بدعت کا جھوٹ ہے۔
دلیل نمبر:7
َ َّ
اَّللُ ل َّ
اَّللِ و َسُوُ نكَ َلر َِّ
د إ ھُنشَْ الوا َ َ ُ ن ق ُوَ َاف
ِق ُن
المَ ْ ءكَاََا ج ِذإ
ذوا اتخَُ
ن َّ بوَ َُِاذ َ َلك ِین َاف
ِق ُن ن ْ
الم َِّ
د إ یشَْ
ھُ اَّللُ َ
َ َّ ه و ولُ نكَ َلر
َسُ ُ َُِّ إ َْ
لم یعَ
ة• (سورۃ المنافقون)1: ًَّ
ُن ْ ج ھم َ َ
انُ یم َ
أْ
سورۃ المنافون ؛ سورۃ مزمل ،احزاب ،نساء ،حج کے بعد نازل ہوئی اور یہ وہ سورتیں ہیں
جن کی چند آیات سے منافقین زمانہ ھذا اپنی گاڑی چالتے ہیں ،حاالنکہ اس کے بعد والی
سورت یعنی سورہ منافقون کا شان نزول یوں ہے :حضرت زید بن ارقم رضی ہللا عنہ نے
فرمایا ہم ایک غزوہ میں رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے دوران سفر
ع بدہللا ابن ابی رئیس المنافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم عزت والے جب مدینہ کو چلے جائیں
الصلوۃ والسالم اور صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو نکال دیں ٰ گے تو ذلت والوں ) یعنی آپ علیہ
گے ،حضرت زید نے یہ واقعہ اپنے چچا کو سنایا انہوں نے رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم کو
بتایا تو آپ نے مجھے بلوا کر سارا واقعہ سنا تو رئیس المنافقین کو بلوایاگیا تو اس نے قسمیں
اٹھاکر اپنی صفائی دی تو زید نے فرماتے ہیں:
ٌّ
ھم ِي َ بن َاَ َ
ه فأصَ دقَُ ََّ
َصَ و َّ
َسَلمِ و ْه َ
َلیاَّللُ ع
لى َّ ََّ ُ َّ
اَّللِ ص َسُول ِي ر بنذَََّ
َكف
ُّ
ه قط•َ ُْ
ِثلُِي م ْنِبیصْ َُلم
وہ فرماتے ہیں پھر مجھے میرے چچا نے بھی مالمت کیا۔ پھر بعدمیں یہ سورت نازل
ہوئی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھے بلوایااور فرمایا:
د• (صحیح البخاری :ج2ص 727ملحضا ً کتاب التفسیر) َْ
یُ یا ز َكَ َ دقََّ
د صَْ
اَّللَ ق
ن َّ َِّ
إ
اب معلوم ہوگیا کہ لفظ شاہد ،شہید جو اس سورت سے پہلے اترنے والی سورتوں میں
تھے اس کے معنی بھی وہ نہیں جو اہل بدعت نے بتائے ہیں یہ محض ان کی اپنی ایجاد ہے۔ شاید
اہل بدعت یہ کہیں کہ چونکہ زید رضی ہللا عنہ کے پاس گواہ نہ تھے اس لیے بات نہ مانی
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 9
گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ علیہ السالم نے تو زید رضی ہللا عنہ کو جھوٹا قرار دیا اور دیگر لوگ
مثل چچا مالمت کرنے لگے ۔ اگر بات وہی ہوتی تو آپ فرماتے زید تم سچے ہو مگر فیصلہ
نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر8
ِ
ِهْ ب َتَّأ
نبَّا َ ََ
لم ً فِیثا َدِ ح ْو
َاجِه َزض أ ِْ
بعَِلى َِيُّ إ َّب
َّ النَسَرْ أ َإ
ِذ و
ِ
ِهھا ب َ
َّأَ َ
َّا نب ََ
ض فلم ٍْ َن َ
بع ْ َضَ ع
ْر َ
َأع ه وَُْض
بعَ َ َر
َّف ِ ع ْه َ
َلیاَّللُ ع
ه َّ َُھر َظ
َْ َأ
و
ُ• (سورۃ التحریم)3:ِیر ْ
ُ الخَب ِیمَل ْ
ِي الع َ َ
َ نب
َّأن َ
ھذا قال َ َ َ َ
َأك ْ َ
ْ أنب ْ َ
من َ
قالت َ
رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو ایک راز بتایا ،انہوں نے چھپ
کر سیدہ عائشہ رضی ہللا عنہا کو بتا دیا جب وحی کے ذریعے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو معلوم
ہوا تو آپ نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ تو وہ کہنے لگیں آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے
تعالی نے بتایا ہے۔
ٰ راز فاش کر دیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا
معلوم ہوا کہ امہات المومنین کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ رسول محترم صلی ہللا علیہ وسلم
ہمیں دیکھ نہیں رہے ورنہ وہ کیوں بتاتیں اور یہ کیوں پوچھتیں کہ آپ کو کیسے پتہ چال۔
دلیل نمبر:9
َ
ْن ً َ
بی ِیقا ْر
تف ً و
ََ ْراُف
َكً و َارا ً ض
ِر مسْجِداذوا َ اتخَُ
َّ َ
ِین َ َّ
الذ و
ْ
ِن َّ
ِفن إ ُ َ ََ
ْل ولیح
ْل ُ َ ْ
ِن قب ه م َ َ َ
اَّللَ ورسُولُ َ
َارب َّ َ ْ
لمن حَ ً
ْصادا ِ َ ِرَ َ
ِین وإ ْم
ِن ُؤ ْ
الم
ً•بدا َ
ِ أَ ِیه ُم
ْ ف تقن ال َ بوَ َاذ
ُِ ْ َلكھمنَُِّ
د إھُیشَْ
اَّللُ َ
َ َّ َى وُسْن ِالَّ ْ
الح نا إ دَ
ََْر
أ
(سورۃ التوبۃ):
امام جالل الدین السیوطی رحمہ ہللا اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
ٰ وھو کاذب فصدقہ رسول ہللا صلی ہللا وہللا ما اردت االالحسنی
علیہ وسلم •(در منثور :ج 3ص)276
معلوم ہوگیا کہ آپ ہرجگہ دیکھنے والے نہ تھے ورنہ ان کے سارے پرو پیگنڈے کو آپ
تو مالحظہ فرما رہےتھے اور آپ ان کی تصدیق نہ فرماتے۔
دلیل نمبر:10
َّى
َت ْ حھمَُْنِضْ ع َع
ْر َأ
َا ف ِنیاتِي آَ ن ف ُوَ یخُوضَ َِین َ َّ
الذ یت َْ
َأَا رِذَإو
َ
ْد
بع ْ
ُد َ ْ َ َ
ْطان فال تقع ُ َ َّ
َنك الشیَ َّ ِیینسما ُ َإ
َِّ ِ و ْر
ِه َ
ِیثٍ غی َدِي حُوا ف یخُوض
َ
َ
ِین• (سورۃ االنعام)68: َّ
ِ الظاِ
لم ْم َ ْ
َ القو معَى َ ْ
ِكرالذ
اور اگر آپ کو شیطان بھالد ے تو نصیحت کے بعد ظالمین کے پاس مت بیٹھیں۔
تو یہ ہے کہ حاضر وناظر اگر خدا بنائے پھر شیطان کیسے آپ کے پاس پہلی بات……
اس حاضر وناظر ہونے میں حائل ہو سکتا ہے۔
یہ ہے کہ ہللا فرماتا ہے ایسی قوم کے پاس آپ بیٹھیں ہی نہیں مگر جب دوسری بات……
حاضر او رناظر ہوئے پھر تو اس قوم کی طرف آپ دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کی باتوں کو سن
بھی رہے ہیں تو پھر اس حکم خداوندی کا کیا فائدہ۔ یہ سب بریلوی حضرات کی مہربانی ہے۔
دلیل نمبر:11
قرآن پاک میں ہے:
َام
ِ•“ (سورۃ بنی َر ْ َسْجِِ
د الح ْ ْ
ِن المْالً م َ
ِ لی ْد
ِه َب
ِعَى ب َ
ِي أسْر ن َّ
الذ َاَ
ْح”سُب
اسرائیل)1 :
سیر کروانے کامطلب یہ ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نہیں دیکھ رہے تھے۔
دلیل نمبر:12
تعالی ہے:
ٰ ارشاد بای
”وال تقم علی قبره“•(سورۃ التوبہ )84 :
کہ آپ اس منافق کی قبر پر کھڑے نہ ہوں یعنی وہاں نہ جائیں۔
مگر ہر جگہ کے حاضر وناظر کہنے والے لوگ تو اس آیت پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو عامل
نہیں مانیں گے۔
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 10
دلیل نمبر:13
َاُ
ء• ِی َغ
ْن ُ أ
ْن ََ
نح ٌ و َق
ِیر اَّللَ ف
ن َّ َِّ َ ُ
الوا إ َ ق
ِین َ َّ
الذ ْلَو َ َّ
اَّللُ ق َْ
د سَم
ِع َلق
(آل عمران)181:
احادیث مبارکہ اور نفی حاضر وناظر
دلیل نمبر:1
عن أبي ھریرۃ قال قال رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم * لقد
رأیتني في الحجر وقریش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشیاء
من بیت المقدس لم أثبتھا فكربت كربة ما كربت مثله قط قال
فرفعه ہللا لي أنظر إلیه ما یسألوني عن شيء إال أنبأتھم به•
(صحیح مسلم :ج1ص،96باب المعراج،صحیح البخاری ج1ص)548
اس میں الفاظ حدیث کی طرف غور فرمائیں ”فكربت كربة ما كربت مثله
قط“ یعنی میں اتنا پریشان ہوا کہ اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر جگہ
حاضر وناظر نہ تھے ورنہ پریشانی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ اگر انہوں نے بیت المقدس
کی کھڑکیاں وغیرہ پوچھ ہی لیں تھیں تو ُ آپ تو ہر جگہ کو دیکھ رہےتھے آپ کو پریشان ہونے
کی ضرورت ہی کیا تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ فاضل بریلوی کے چاہنے والوں نے خود
گھڑا ہے۔
دلیل نمبر:2
َا َ
معَ ْن َر
َج ْ خ َ َ
الت َ قلمَسََِّ و ْه
لیََاَّللُ ع
لى َّ ََّ
ِيِ ص َّب
ِ النْجَو ة زِشَََائ ْ ع َنع
ُن
َّا ِذا ك َ َّى إ
َتِ حِهَار َ
ض أسْف ِْ
بعِي َ َ ف لمَسََّ
ِ و ْه َ
َلیاَّللُ ع
لى َّ ََّ ِ َّ
اَّللِ ص َسُولر
ََّ
اَّللِ صلى ُ َ َ ََ
ِي فأقام رسُول َّ َ ٌ
ِقد لْ َ َ َ
ْشِ انقطع عْ َی ْ
ِذاتِ الج َْ ب َ
ء أو ْداَِ َ ْ
ِالبی ب
َ
َثناْ َع َ
ه••• فب َُمع َّ
َ الناسُ َ َ
َأقامَ ِ و ِه َاس ْ
َلى الت
ِم ََ ع َّ
َسَلم ِ و ْه َ
َلیاَّللُ ع
َّ
(صحیح البخاری َُ
ه• ْت
تحد َ ْ
ِقَ ْ
َا الع ْنَب َ
َأص ِ ف ْه َ
َلیُ عْتُن ِي ك َّ
َ الذ ِیر َع ْ
الب
ج2ص)663
سیدہ عائشہ رضی ہللا عنہا کا ہار گم ہو گیا اور یہ الفاظ خصوصیت سے ذہن میں رکھیے
ِ“کہ آپ علیہ السالم َاس
ِه ِم لى ْ
الت ََ
َ ع
لمَسََّ ْه
ِ و ََ
لی اَّللُ ع
لى َّ ََّ ُ َّ
اَّللِ ص َسُول
َ ر َق
َام َأ
”ف
اس ہار کو تالش کرنے کے لیے رک گئے اب کوئی تاویل نہیں چل سکتی کہ اس لیے رکے
تھے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم آجائے۔ یہ معنی نکالنا صریح الفاظ کی خالف
ورزی ہے کیونکہ روایت میں ہار تالش کرنے کے لیے رکنا صراحتا ً آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ
اگر پہلے ہی سے دیکھ رہے ہوتے تو ہار کا گرنا اور چھپنا سب آپ کی نظر میں ہوتا۔
دلیل نمبر:3
قال أنس أصبح رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم عروسا بزینب
بنت جحش قال وكان تزوجھا بالمدینة فدعا الناس للطعام بعد
ارتفاع النھار فجلس رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وجلس معه
رجال بعد ما قام القوم حتى قام رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم
فمشى فمشیت معه حتي بلغ باب حجرۃ عائشة ثم ظن أنھم قد
خرجوا فرجع ورجعت معه فإذا ھم جلوس مكانھم•
(صحیح مسلم :ج1ص،461صحیح البخاری :ج2ص)706
آپ نے سیدہ رینب رضی ہللا عنہا سے نکاح فرمایا چند صحابہ کرام کو دعوت ولیمہ پر
مدعو فرمایا تو وہ کھانے ک ے بعد آپ علیہ السالم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ گئے ،ان کے
طویل بیٹھنے سے آپ کو یہ بات ناگوار نہ گزری مگر زبان سے توکچھ نہ کہا اور خود اٹھ کر
باہر تشریف لے گئے کہ شاید یہ بھی چلے جائیں گے مگر جب واپس آکر دیکھا تو وہ بدستور
بیٹھے ہیں آ پ پھر سے چلے گئے تو پھر آپ تشریف الئے ۔ یہ روایت آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے
ہر جگہ حاضر وناظر ہونے صراحتہً تردید کر رہی ہے۔
دلیل نمبر:4
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 11
َ
لمَسََِّ وْه
لی ََ اَّللُ ع
لى َّ ََّ
ِيُّ ص َ الن
َّب َثبعَ ََاله قَُْناَّللُ ع
ِيَ َّ َض
نسٍ ر ََْ أَنع
ِيبن ْ
ِن َ َّانِ م َیْ ح ھم َ
َضَ لُ َر َ
ء فع َّاُ ُ ْ
ْ القر َ ُ
یقال لُ
ھم َ ٍ ُ َة
َاجلح ً
ُال ِ َج َ
ِین ر ْع سَب
ُ
ْم َ ْ
َ القو َ َ
ُونة فقال َ َ معُ َ ْ
ِئر ھا ب َ
ُ لَ َ
یقال ٍ ُ ْ
ِئرد ب َْ
ِنَان عُ ْ َ
َذكو ٌ و ْلِع
ٍ ر ْم
لی سَُ
َّى
َل ِيِ صَّب
ِلن ٍ ل َةَاج ِي ح ن ف ُوَ َازْتمجُ ُْننحَا َنمَِّ
نا إ دَََْر
ْ أُمیاك َِّ
ما إ اَّللِ َ
َ َّ و
ْ
ِمْھ لیََ
َ علم َسََّ
ِ و ْه ََ
لی اَّللُ ع
لى َّ ََّ َّب
ِيُّ ص َا الن ََ
دع ْ ف لوُ
ھم َُ َت
َقَ ف
لمَسََّ
ِ و ْه
لیََاَّللُ ع
َّ
ُ ُ ْ َ
ما كنا نقنت• َّ ُ ََ ُ ُ
ء القنوتِ وْ ْ
بدُ َ
ِك َ َ
َذل ِ و ََ
ِ الغداۃْ َ
َالۃِي ص ًا ف ھر شَْ
(صحیح البخاری :ج2ص)586
آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے مہینہ بھر ان قبیلوں پر دعائے ضرر کرنے سے معلوم ہوتا
ہے کہ اگر آپ کو پہلے معلوم ہوتا یا ان کی سازشوں کو دیکھ رہے ہوتے تو کبھی ان کو
روانہ نہ فرماتے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے منشا خداوندی دیکھی کہ ان کی موت کا وقت
آگیا ہے اس لیے روانہ فرما دیا ۔ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ایک دو دن نہیں پورا مہینہ
دعائے قنوت پڑھ کر ان کے خالف بد دعا فرمانا یہ اس کی دلیل ہے کہ آپ کی یہ تاویل غلط ہے۔
دلیل نمبر:5
َاَ
ن َ ك َاله ق َُْناَّللُ ع
ِيَ َّ َضِكٍ ر مال َ َ نسَ ْ
بن ََُ أ ْتِعۃ سَم دََاََتْ ق َنع
ِي َ
َسًا ِألب َ
َ فر َّ
َسَلم ِ و َلی
ْه َ َلى َّ
اَّللُ ع َِّيُّ ص َّ
َ النب َار َ
ٌ فاسْتعَ َ َ
ِ فزع َ
ِینة َد ب ْ
ِالم
ه•َُ َك
ِب َر
ٌ ف دوبُْمنه َُ َلَُالیقة ُ ََ
لحَْ
ط
دوسری جگہ ہے:
ِ َ
ِینة َ ْ َ َْ ََّ
اَّللُ عنه أن أھل المد ُ ْ َ ِيَ َّ َ
ِكٍ رض َ ْ َ َ
ۃ عن أنسِ بنِ مال َْ دََاََتْ قَنع
َ
َة ْ َ
ِي طلح َ
َسًا ِألب َ
َ فر َّ
َسَلم ِ و ْه َ
َلی َلى َّ
اَّللُ ع َِّيُّ ص َّ
َ النب َك
ِب َ ً
َّۃ فر مرُوا َ ِعَز
ف
َ
ھذا ْ َ ُ
َسَكم َ
دنا فر َ ََْج َ و َ
َ قال َعَجَّا ر ََ
ٌ فلم َ
ِطاف ِ ق ِیه َ
ْ كان فَ َ
ُ أو ِف ْ
یقط َ
كان َ َ
َى• (صحیح البخاری ج1ص)401 َاریجال ُِكَ َ َ
د ذل َْ
بعن ََاََكًا ف ْر َ
بح
آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا گھوڑا پر تشریف لے جانے دیکھنے کےلیے کہ یہ آواز کیا
تھی۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی کرتی ہے ورنہ آپ تو
وہیں سے بتا دیتے کہ یہ فالں شے ہے۔
دلیل نمبر:6
عن إبراھیم التیمي عن أبیه قال كنا عند حذیفة فقال
رجل * لو أدركت رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم قاتلت معه وأبلیت
فقال حذیفة أنت كنت تفعل ذلك لقد رأیتنا مع رسول ہللا صلى ہللا
علیه وسلم لیلة األحزاب وأخذتنا ریح شدیدۃ وقر فقال رسول
ہللا صلى ہللا علیه وسلم أال رجل یأتیني بخبر القوم جعله ہللا معي
یوم القیامة فسكتنا فلم یجبه منا أحد ثم قال أال رجل
یأتینا بخبر القوم جعله ہللا معي یوم القیامة فسكتنا فلم
یجبه منا أحد ثم قال أال رجل یأتینا بخبر القوم جعله ہللا
معي یوم القیامة فسكتنا فلم یجبه منا أحد فقال قم یا
حذیفة فأتنا بخبر القوم فلم• (صحیح مسلم :ج 2ص)107
رسول پاک صلی ہللا علیہ کا تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ کون مخالفین کی خبر الئےگا
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ہر بات اور ذرہ ذرہ کا علم توخدا کو ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ
اگر آپ ہرجگہ ہی ہر وقت دیکھ رہے ہوتے تو ”اال یا تینی بخبر القوم“
کہنے کی ضرورت ہی کیا۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
دلیل نمبر:7
َ
ْت َ َ
بی َسََّ
لم ْه
ِ و ََ
لی اَّللُ ع
لى َّ ََّ ُ َّ
اَّللِ ص َسُولء رَاَ َال
َ ج ْد
ٍ ق بنِ سَعِ ْ ْ سَْ
ھل َنع
َاَ
ن ْ ك َ َ
ِكِ قالت ُ ع
َم بن َ اْین َ
ل أْ َقاََ ْتِ فَی ْ
ِي الب ًّا ف
ِیَل
د ع یجِْ
ْ َ َ
َلمة فََ
ِمَاطف
(صحیح البخاری: ِي•ْدِن ْ ع
ِلیقْ َ َلمََ فَجَخَر
ِي ف َب
َن َاض
َغء فه شَيٌَُْْن
بیََ
ِي و ْن
بیَ
ج2ص)63
آپ علیہ السالم کا یہ فرمانا ”این ابن عمک“ آپ کا چچا زاد بھائی کہاں ہے؟ ۔ یہ
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 12
بھی آپ علیہ السال م کے ہر جگہ دیکھنے کی تردید کرتا ہے۔
دلیل نمبر:8
َسْجَِ
د. َ ْ
الم َل َّى َ
دخ َت اَّللِ -صلى ہللا علیه وسلم -حُ َّ َسُول
ء ر ْ ج
َاَ ِذإ
َّاتٍ.
مر َ َ َ
ِىَّ » .ثالَث
ْس َّ
الدو َى
َت َسَّ ْ
الف َ
ْ أح ل « َ
من َاَ
َقف
(سنن ابی داؤد ج1ص)295
رحمت کونین صلی ہللا علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہوتے ہی فرمایا کسی نے دوسی
جوان یعنی ابو ہریرہ کو دیکھا ہے یا کسی کو اس کا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے یہ بھی آپ صلی ہللا
علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی پر صریح دلیل ہے۔
دلیل نمبر:9
عن جابر بن عبد ہللا أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم مكث
بالمدینة تسع سنین لم یحج ثم أذن في الناس بالحج في
(مشکوۃ شریف ج1ص)224
ٰ العاشرۃ•
مکث بالمدینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدینہ طیبہ میں ٹھہرے ہوئےتھے اگر ہرجگہ ہوتے تو
صرف مدینہ طیبہ ٹھہرنے کی وجہ پھر کیاہوئی؟
دلیل نمبر:10
أنس بن مالك أن أبا بكر الصدیق حدثه قال * نظرت إلى
أقدام المشركین على رءوسنا ونحن في الغار فقلت یا رسول ہللا
لو أن أحدھم نظر إلى قدمیه أبصرنا تحت قدمیه فقال یا أبا
بكر ما ظنك باثنین ہللا ثالثھما•
(صحیح مسلم :كتاب فضائل الصحابة رضي ہللا عنھم۔ باب من فضائل أبي بكر الصدیق رضي ہللا عنه)
آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا غار میں رہنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ہرجگہ نہ تھے۔
دلیل نمبر:11
ِفُْرألَع
ِي َِنَ إ َّم
َسَل
ِ وْه ََ
لی اَّللُ ع
لى َّ ََّ َّب
ِيُّ ص َ الن َال
موسَى ق ِي ُ َب
ْ أ َنع
ِفُْر َ
َأع ِ وْل َّ
ِاللی ن بلوَُُ
دخ َ َ
یْ ُر
ْآنِ حِین َ ب ْ
ِالق ِین
ِیَر َِ ْ
األشْع َة
ْقُفَ ر َاتْو َصأ
َ َ
ْ أر ُ َلم ْتُنن ك َِْإ
ِ و ْل ْآنِ ب َّ
ِاللی ُر ْ ب ْ
ِالق ِھ
ِم َات
ْو َ
ْ أص ِنْ م َِلُ
ھم َاز منَ
ِ• (صحیح البخاری ج2ص)608 ھارََّ
ِالنَُلوا بنزَ َ
ْ حِین َِلُ
ھم َاز منَ
اشعری صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کے متعلق آپ نے فرمایا میں نے ان کے ٹھکانے
کو نہیں دیکھا ،دن کے وقت وہ جہاں ہوتے ہیں ۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر:12
ُ
َسُولَ ر َلَك
ْ أھلُ َ ُْ
لت َق ْد
ٍ ف َ سَع َ ْ
بن ھلُ سَْ َْلت
َ سَأَالٍ ق َاز
ِم ِي ح َب ْ أَنع
َّ
َلى ُ َّ
اَّللِ ص َسُول
َأى رَ ما رٌ َ ھلَ سَْ َ
َقال َّق
ِيَّ ف َ الن َّ
َسَلمِ وْه َ
َلی َلى َّ
اَّللُ ع َّ َّ
اَّللِ ص
اَّللُ• (صحیح
ه ََُّ َب
َض َّى قَت
اَّللُ ح
ه َّ َ
َثُ َع
بتَ اْْ حِین ِن َّق
ِيَّ م َ الن َسََّ
لم ِ و َ
َلی
ْه اَّللُ ع
َّ
البخاری :ج2ص)814
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے وفات تک میدہ نہیں دیکھا۔ یہ بھی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے
ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
اور یہ بھی بخاری میں ہے :
هَ
َثَُع
بتَ اْ ْ حِین ِن ْخًُ
ال م منَ ُ َّ
َسَلم ِ وْه َ
َلی َّ
َلى َّ
اَّللُ ع ُ َّ
اَّللِ ص َسُولَى ر َأ
ما ر َ
اَّللُ• (صحیح البخاری ج2ص)814،815 ه َّ َُ
َضَب
َّى قَت
اَّللُ ح
َّ
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے وفات تک چھاننی نہیں دیکھی۔
دلیل نمبر:13
عن أبي ھریرۃ قال قال رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم *
صنفان من أھل النار لم أرھما قوم معھم سیاط كأذناب البقر
یضربون بھا الناس ونساء كاسیات عاریات ممیالت مائالت
رؤوسھن كأسنة البخت المائلة ال یدخلن الجنة وال یجدن ریحھا
وإن ریحھا لیوجد من مسیرۃ كذا وكذا• (صحیح مسلم ج2ص)383
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 13
دو جہنمی طبقوں کو آپ علیہ السالم نے نہیں دیکھا۔ یہ بھی ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے
دلیل نمبر:14
َ
بناَّللِ ْ
د َّ َْ َبن ع ََّ
ِكٍ أ
مالبنِ َ َع
ْبِ ْ بنِ كاَّللِ ْ
ِ َّ ْدَببنِ ع َنِ ْ
ْمَّح
ِ الر ْدَب
ع
َ
ْبَعُ ك ْتِعَ سَم َ
ِيَ قالَمَ ع
ِ حِین ِیه
بنْ َ
ِن ْبٍ م َعد كَِ َ
ن قائ َاََكِكٍ و بنِ َ
مال ْبِ َْعك
ن َ
د أْ ِیُ ٌ ُ
یر ُلَج
َا ر َمَ••• ف ُوك ِ َ
تب َّة
ِص ْ قَن َ علفتخَََّ َُ حِین َد
ِث یحِكٍ ُمالَ َبنْ
(صحیح ْيُ َّ
اَّللِ• َحِ وِیه
ل فِْْزین ما َلم
ْ َ ه َ َى َلُ َخْف
ن سَی َ
َّ أَْن َِّ
ال ظ َ إ َی
َّب َغ
یتَ
البخاری ج2ص)634
غزوہ تبوک میں اتنا رش تھا لوگوں کا مگر کوئی آدمی اس گمان سے چھپنا چاہتا کہ جب
تک وحی نہ آئے گی میری عدم موجودگی کا پتہ آپ علیہ السالم کو نہ چلے گا تو چھپ سکتا تھا۔
یہ بھی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے صراحتہً حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر:15
مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم حضرت رقیہ کے فوت ہونے وقت
حاضر نہ تھے۔
(تاریخ مدینہ ص 175ترجمہ جذب القلوب الی دیار المحبوب الشیخ دہلوی رحمہ ہللا)
دلیل نمبر:16
(حدیث شریف میں ہے) :کاش میں دیکھتا اپنے بھائیوں کو۔ (نور علی نور ص )23
دلیل نمبر:17
ابن مندہ وابو نعیم معرفۃالصحابہ میں حضرت ربیعہ بن وقاص سے راویت نقل کرتے ہیں کہ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں تین مقامات ایسے ہیں کہ ان میں بندے کی دعا رد
نہیں کی جاتی ان میں سے ایک وہ بندہ جو جنگل میں کھڑا ہو کر اس حال میں نماز ادا کرے کہ اسے
اس کے رب عزوجل کے سوا کوئی نہ دیکھتا ہو ۔ ( فضائل دعا ص225مکتبہ مدینہ)
دلیل نمبر:18
عالمہ سبکی لکھتے ہیں :حضرت ابوبکر ؓ سے منقول ہیں کہ نبی پاک ﷺ کے سامنے آواز بلند
کرنا نہ نبی کی زندگی میں جائز تھا نہ موت کے بعد۔حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ
اگر حضور کی قبر مبارک کے پاس کوئی شور کرتا تو کہالتی تھیں حضور کو تکلیف نہ
پہنچاو۔حضرت عل ؓی نے اپنے گھر کی چوکھٹ وغیرہ بنوائی تو مناصع میں لے جاکر بنوائی جو ٔ
آبادی سے باہر جنگل ہے تاکہ قبر مبارک کے پاس شور نہ ہو ۔عالمہ سبکی آگے لکھتے ہیں صحابہ
کرام ؓؑؓ آنحضور ﷺ کی تعظیم کیوجہ سے قبر کے پاس بہت پست آواز سے گفتگو کرتےتھے ۔ایک
دن حضرت عمر ؓ مسجد میں تشریف فرما تھے دونوجوان مسجد میں آئے اور بلند آواز سے آپس
میں باتیں کرنے لگے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنے پاس بالیا او ر دریافت کیا تم کہاں سے آئے ہو
عمر نے فرمایا اگر تم مدنی
انہوں نےکہا ہم طائف کے باشندے ہیں طائف سے آئے ہیں حضرت ؓ
ہوتے تو ابھی تمہارے کوڑے لگاتا ۔
(زیارت خیراالنام ترجمہ شفاءالسقام ص،146،147مصدقہ ابوالحسن زید فاروقی)
دلیل نمبر:17
عالمہ ابن کثیر ؒ نے سانحہ بیر معونہ کے متعلق یوں لکھا ہے حضرت عمرو بن امیہ ؓ کو اس
لیے گرفتار کرنے کے بعد چھوڑ دیاگیا تھا کہ ماں کی طرف سے ان کا قبیلہ مضر تھا اور ان کے
ساتھ ایک انصاری ساتھی کو بھی چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اس سانحہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو عمرو بن
امیہ اور اس کے اس انصاری ساتھی نے ہی دی تھی ۔ (البدایۃ والنھایۃ ج4ص)483
دلیل نمبر:18
سیدنا حبیب ؓ نے شہادت سے پہلے یوں کہا :
اے ہللا ہم نے تیرے رسول کی رسالت کی تبلیغ کر دی تو بھی اپنے رسول کو ہماری اس
حالت کی خبر پہنچادے ۔
(سیرت ابن ہشام ج2ص)328
دلیل نمبر:20
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 14
آپ ﷺ نے فرمایا:
وان یخرج ولست فیکم فکل امرء حجیج نفسہ• (صحیح مسلم:
ج2ص)401
یعنی اگر دجال میری عدم موجود گی میں ظاہر ہوا تو ہر آدمی اپنا محافظ خود ہے ۔
فتاوی جات
حضرت عالمہ عبدالحی لکھنوی ؒ لکھتے ہیں: :1
واقعی انبیاء ،واولیاء،کو ہر وقت حاضر وناظر جاننا اور اعتقاد رکھنا کہ ہر حال میں وہ
ہماری ندا سنتے ہیں اگر چہ ندا دور سے بھی ہو شرک ہے ۔
(مجموعۃالفتاوی ج1ص)46
فتاوی مسعودی میں ہے: :2
یا رسول ہللا کہنا مثل سونے اور نشست اور کار وغیرہ کے وقت ممنوع ہے اور بہ نیت
حاضر وناظر کہنا موجب شرک کا ہے ۔
(فتاوی مسعودی ص529مصدقہ عبدالحکیم شرف قادری بریلوی ،مولوی منشاتابش قصوری بریلوی)
عالمہ ابن نجیم ؒ لکھتے ہیں: 3
قال علماءنا من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر•
(البحرالرائق ج5ص)124
یعنی ہمارے احناف فرماتے ہیں کہ جو یہ کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں اور جانتی
ہیں تو ایسا شخص کافر ہے ۔
شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی فرماتے ہیں: :4
انبیاء مرسلین را لوازم الوھیت از علم غیب وشنید ن فریاد ہر کس درہر جا وقدرت بر جمیع
مقدرات ثابت کنند ۔(تفسیر عزیزی ج1ص)55
یعنی جمیع غلط عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ نبی اور پیغمبروں کیلئے خدائی صفات جیسے علم
غیب اور ہر جگہ سےہر شخص کی فریاد سننا اور تمام ممکنات پر قدرت ثابت کرتے ہیں اس سے
معلوم ہوا کہ علم غیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہو ناخدا کی صفت ہے کسی اور میں ماننا شرک ہے
۔
اہ ِل بدعت کے چند دالئل پر سرسری تبصرہ
دلیل نمبر:1
انا ارسلنک شاھدا• (القرآن)
ٔالء شھیدا• (القرآن) وجئنا بک علی ھو
شاھد وشھید کا معنی حاضر وناظر ہے ۔
جواب نمبر :1
آپ کا جھگڑا تو ہر جگہ حاضر وناظر کا ہے ورنہ ہر آدمی حاضر وناظر ہے اپنے مقام پر
کیونکہ حاضر کا معنی موجود اور ناظر کا معنی دیکھنے واال تو ہر آدمی اپنی جگہ پر موجود بھی
ہے اور ناظر بھی ہے جیسا کہ اشرف جالل صاحب لکھتے ہیں شاھد ہر بندہ ہے کوئی بندہ ایسا نہیں
جو شاھد نہ ہو ۔
(م ٔسلہ حاضر وناظر ص)16
جواب نمبر :2
قرآن پاک میں؛ ” شھد شاھد من اھلھا “ (سورۃ یوسف )26 :اور ”وتکونوا
شھداء علی الناس“ (سورۃ الحج )78 :ہے یعنی یوسف علیہ السالم کی پاکی کی گواہی دینے
والے کو بھی قرآن نے شاھد کہا ہے اور صحابہ کرام کو شھید کی جمع شہداء کہا گیا وہ بھی ہر جگہ
حاضر وناظر ہو گئے ؟
جواب نمبر:3
شاید رضا خانی یوں کہیں کہ اسکا معنی گواہ کرو تو بھی آپ صلی ہللا علیہ و سلم حاضر
وناظر ثابت ہو جائیں گے کیونکہ جو موقع پر موجود نہ ہو وہ گواہی کیسے دے سکتا ہے تو اس کے
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 15
متعلق عر ض خدمت یہ ہے کہ صحابہ کرام کو بھی گواہ کہا گیا اور سیدنا یوسف علیہ السالم کی
پاکدامنی کی گواھی دینے واال بھی تو گواہ ہے اور احادیث میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک صحابی
نے آپ کی گواہی دی تھی اور یہ بن دیکھے تھی ۔ تومعلوم ہو ا کہ بن دیکھے بھی گواہی دی جا
سکتی ہے :
ابوالحسنات قادری لکھتے ہیں: :1
علم یقین
اشیاء معروفہ میں شھادت سماعی بھی معتبر ہے یعنی جن چیزوں کے سننے کا ِ
حاصل ہو ،اس پر شہادت دی جا سکتی ہے ۔ (تفسیر الحسنات ج1ص)278
عالمہ سعیدی لکھتے ہیں: :2
کبھی اس چیز کی خبر کو شھادت کہتے ہیں جس کا اسکو یقین ہو یا وہ چیز مشہور ہو ۔
(تبیان القرآن ج1ص)1006
اور فقہاء نے بھی لکھا ہے :انما یجوز للشاھد ان یشھد باالشتھاد وذالک
بالتواتر او اخبار من یثق بہ•(ہدایہ ج3ص)157
یعنی جو چیز کہ تواتر کی وجہ سے مشہور ہو جائے یا کسی ثقہ اور معتبر نے خبر دی ہو تو
شاھد کو جائز ہے کہ گواہی دے دے ۔تو معلوم ہوگیا کہ گواہی کیلئے دیکھنا ضروری نہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ گواہی دیں گے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کے اعتبار سے نہیں
بلکہ آپکی امت کے اعمال آپ کو پیش کیے جاتے ہیں جس وجہ سے آپ ﷺگواہی دیں گے ،جیسا کہ
:
بریلوی عالمہ عبد الرزاق بھترالوی لکھتے ہیں :
تمام انبیاء کرام کو انکی امتوں کے اعمال پر مطلع کیا گیا ہے کہ فالں آج اس طرح کر رہا
ہے دوسرا شخص اس طرح کر رہا ہے انکو مطلع کر نیکی یہ وجہ ہے کہ وہ بھی قیامت کے دن
گواھی دے سکیں ۔ (نجوم الفرقان ج4ص)48
بریلوی عالمہ عالم رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں :
نبی ﷺ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہو نگے کیونکہ بغیر علم کےگواہی جائز نہیں نبی پاک
ﷺ کو ہللا تعالی نے تمام امتوں کے احوال اور افعال پر مطلع فرمایا اور انکی دنیا وآخرت کا آپ کو
علم عطا فرمایا ہے خصوصا آپکی امت کے اعمال قبر انور میں آپ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔
(تبیان القرآن ج1ص)572
بریلوی عالمہ ابو لبرکات قادری لکھتے ہیں :
کوئی دن ایسا نہیں مگر پیش آپکی امت کے اعمال کو صبح وشام کیا جاتا ہے پس آپ انکو
نشانی اور ان کے اعمال کی وجہ سے پہچان لیتے ہیں اسی عرض اعمال کی وجہ سے آپ ان پر
گواہی دیں گے ۔ (رسائل ومناظرے ابو البرکات ص)104
بریلوی عالمہ شرف قادری صاحب لکھتے ہیں :
نبی پاک ﷺ اپنی امت کے گواہ ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ آپ کے سامنے امت کے اعمال
پیش کیے جائیں ۔(اسالمی عقائد ص)277
اگر عرض اعمال کی بنیاد پر ہر جگہ حاضر وناظر کہا جائے تو پھر یہ اسی شرف قادری کی
کتاب اسالمی عقائد کے ص230پر پورا باب عالم برزخ میں رشتہ داروں کے سامنے اعمال کا پیش
کیا جانا بھی موجود ہے ۔ تو پھر سارے وفات شدہ حضرات کئی جگہوں پر حاضر وناظر ہو نگے
القصہ بغیر ہر جگہ موجود ہوئے بھی گواہی دی جا سکتی ہے جیسے یو سف علیہ السالم کے گواہ
کی گواہی حاالنکہ وہ ہر جگہ یا اس جگہ موجود نہ تھا ۔تو سرکار طیبہ ﷺ بھی گواہی دے سکتے ہیں
وگر نہ بریلوی حضرات کو اذان چھوڑ نی پڑے گی کہ:
اشھد ان ال الہ االہللا (میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک کےعالوہ کوئی معبود نہیں)
اشھد ان محمدا رسول ہللا (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ہللا کے رسول ہیں )
رویت ومشاھد ے کی بناء پر ایسےہی سرکار طیبہ جیسے یہ گواھی علم کے اعتبار سے ہے نہ کہ ٔ
ﷺ بھی گواہ ہیں ۔
جواب نمبر:4
اگر یہی ترجمہ بالفرض مان بھی لیں تو ترجمہ حاضر وناظر کا ہے اور جو عقیدہ بنایا اس
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 16
سے تو صرف ناظر ثابت ہو تے ہیں نہ کہ حاضر ،تو یہ آیتیں تمہیں مفید نہیں ۔
جواب نمبر:5
اس لفظ ”شاھد“ کے کئی مطالب ومعانی ہیں :
)1کسی چیز کی خبر دینے والے اور
)2کسی چیز کے حال کو بیان کرنے والے کو بھی شاھد کہتے ہیں ۔ (نجوم الفرقان ج 4ص)47
)3امام سلمی کہتے ہیں :پہال معنی یہ ہو گا ہللا فرمارھا ہے شاھدًا لنا ہم نے تجھے اپنا گواہ بنایا ہے
۔ (م ٔسلہ حاضر وناظر از اشرف جاللی ص)19
)4اس وجہ سے حضرت کا نام شاھد ہے کہ وہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونے والے ہیں ۔ (شرح
کبریت احمر ص80از موالنا عبد المالک)
یہ 4عدد حوالے صرف بریلوی حضرات کی کتب کے ہیں شاھد کے معنی ومفہوم کو مختلف
بیان کیا ہے معلوم ہوا کہ شاھد کا معنی حاضر وناظر کرنا قطعی الداللۃ نہیں جب قطعی الداللت
نہیں تو اس عقیدے میں مفید نہیں ہو سکتا ۔
جواب نمبر:6
اس حدیث کو دیکھ کر معنی تیار کیجئے آپ علیہ السالم فرماتے ہیں:
اقول کما قال العبد الصالح الخ
یعنی قیامت کے دن میں بھی وہی کہوں گا جو میرے نیک بھائی عیسی بن مریم نے کہا کہ
”کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم“ میں ان کی نگرانی کرتا رہا جب تک ان میں
رہا اور جب تو نے مجھے اس دنیا سے اٹھا لیا تو پھر تو ان ہی کا نگران ونگہبان تھا ۔ (بخاری ج
2ص)665
معلوم ہوا کہ ”شاھد“ اور ”شہید“ کا معنی ہر جگہ حاضر وناظر لینا درست نہیں ورنہ آپ یوں
نہ فرماتے کہ اے ہللا! میرے اس دنیا سے کوچ کے بعد نگران ونگہبان توآپ تھے ،میں نہ تھا۔
المختصر شاھد اور شھید کا معنی گواہ ہی ہو گا اور یہی احادیث طیبہ سے بھی ثابت ہوتا
ہے ۔
دلیل نمبر:2
وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم آیت ہللا وفیکم رسولہ•
(القرآن)
جواب نمبر:1
یہ آیت بھی تمھیں مفید نہیں کیونکہ تمہارا عقیدہ ہر جگہ ناظر کا تو بن سکتا ہے حاضر کا تو
نہیں بن سکتا ۔جو دعوی لکھا ہے اس کے مطابق۔ جبکہ اس آیت سے ہر جگہ موجود ہونا ثابت کر
رہے ہوتو یہ آیت تمہارے بھی خالف ہے ۔
جواب نمبر:2
کسی ایک مفسر جو متفق علیہ ہو اس آیت کے تحت تمہارا عقیدہ لکھا ہو ؟ کیا پندر ہ صدیوں
بعد قرآن تمہیں سمجھ آیا اور 15صدیاں فہ ِم قرآن سے خالی گئی ہیں ۔
جواب نمبر:3
اس آیت کا مفہوم سمجھنے کیلئے کسی بھی تفسیر کو اٹھایئے معلوم ہو جائے گا کہ اوس
وخزرج کو لڑائی خت م کرنے اور صلح کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اب تم میں نبی آخر الزمان موجود
ہیں اب کیوں لڑتے ہو ۔ جیسے کوئی بڑا آدمی موجود ہو لوگ لڑ پڑیں تو لوگ انہیں کہتے ہیں :یار نہ
لڑو ،کچھ خیال کرو ،فالں صاحب تشریف فرما ہیں ان کا لحاظ کرو۔ اوس اور خزرج کو سمجھانے
کے لیے یہی طرز اختیار کیا گیا۔
جواب نمبر:4
چونکہ یہ قطعی الداللۃ نہیں اس لئے کہ تمہارے عقیدے کو ثابت نہیں کر رہی تو یہ تمہیں
مفید نہیں ۔
جواب نمبر:5
احادیث میں موجود ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرہ میں پردے پر فوٹو ہونے کی وجہ سے آپ
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی 17
ﷺ داخل نہ ہوئے جب تک اسے پھاڑ کر پرزے پرزے نہیں کر دیا گیا ۔ (مشکوۃ ص )385اب تو
جگہ جگہ فوٹو ہیں تو آپ کیسے یہاں موجود ہو سکتے ہیں ؟
نیز سیدنا ابن عمر ؓ سے مروی ہے جسکا خالصہ یوں ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس
کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چال جاتا ہے۔ (ترمذی ج1ص)19
جب فرشتہ ایسی جگہ پر رہنا پسند نہیں کرتا تو سرکار طیبہ ﷺ کو آج کل ایسی مجالس عالم
میں کیوں موجود سمجھا جاتا ہے ؟!!