Você está na página 1de 2

‫’’آپ کا صفحہ ‘‘‪،‬‬

‫بروز اتوار‬
‫ِ‬ ‫’’سنڈے میگزین ‘‘ برائے اشاعت ‪۳ :‬؍ تا ‪ ۹‬فروری ‪۲۰۱۹‬ء‬
‫روزنامہ جنگ ‪،‬کراچی‬
‫وعلیکم السالم ؒ ‪ ،‬خوش‪ ،‬سالمت‪ ،‬فعال ‪ ،‬ماال مال‪ ،‬الغرض ہر لحاظ سے آسُودہ حال رہئے‪ ،‬آپ سب ! ٰالہی آمین !‬
‫تازہ شمارہ ایک من موہنے سرورق کے ساتھ موجود ہے‪ ،‬سرورق کا سُرخ رنگ سرد موسم میں مزید کِھل رہا ہے‪’’ ،‬قصص االنبیاء‬
‫‘‘ کا نیا سلسلہ پسند آیا‪ ،‬مبارکباد قبول کیجئے‪ ،‬مبارکباد کے مستحق تو جناب محمود میاں نجمی بھی ہیں کہ ایسی عمدہ تحقیقات منظر‬
‫عام پر التے ہیں‪ ،‬اس سل سلے کا پہال مضمون حضرت آدم ؑ سے متعلق ہے‪،‬جسے بہت مناسب پیرایوں میں لکھا گیا ہے‪،‬نجمی صاحب‬
‫سے‪ ،‬ہمیشہ ایک ہی گزارش‪ ،‬کہ آیات و احادیث کے ’’حوالہ ہا نمبر‘‘ ضرور عنایت فرمادیا کریں ‪ ،‬مثال ً ’’صحیح ُمسلم ‘‘یا‬
‫’’صحیح بخاری ‘‘ کی احادیث کا کوئی ’’ریفرنس نمبر ‘‘ موجود نھیں ۔منور مرزا ’’حاالت و واقعات ‘‘ کے تناظر میں عرب‬
‫ممالک کے تعاون کو بیان کررہے ہیں ‪ ،‬ویسے بہت معذرت کہ‪ ،‬یہ وہ سعودی فرمان روا نھیں ہیں جیسے ہم اپنے بچپن یا جوانی میں‬
‫سُنا‪ ،‬پڑھا اور دیکھا کرتے تھے۔اُس وقت ’’پروفیشنل ازم ‘‘ سے سعودی عرب واقف بھی نہیں تھا ۔’’سنڈے اسپیشل ‘‘ نجم الحسن‬
‫ت زر ‘‘ اور پاکستان کی آمدن میں استحکام کے سنجیدہ موضوع کو لئے طلوع ہوا‪ ،‬سچ ہے قرضوں میں ِبندھی‬ ‫عطاء کے ’’ترسیال ِ‬
‫مملکت کو جو چاہے آنکھیں دِکھائے‪ ،‬جو چاہے احسان جتائے‪ ،‬زندہ قوموں کے حساس اور خوددار حکمران ذاتی تعشیات کو مزید‬
‫فر وغ دینے کے لئے غیر ممالک سے قرض نھیں لیا کرتے ‪ ،‬ہیر پھیر کے موجودہ حکومت نے وہی کیا ‪ ،‬جس کی بیخ کنی کی یہ‬
‫باتیں کیا کرتے تھے‪ ،‬قول و فعل میں اس قدر تفرقہ ؟؟؟ کمال است !! بلکہ‪ ،‬افسوس است !! نِت نئے ٹیکسوں تلے ُکچلی اور ِپسی‬
‫ہوئی عوام کوکوئی مالی ریلیف نھیں مل پارہا‪ ،‬نہ تنخواہیں مل رہی ہیں‪ ،‬نہ بڑھ رہی ہیں ‪ ،‬نہ پنشن میں اضافہ ہورہا ہے ‪ ،‬تاہم اب‬
‫میچورڈ پینشن ( ‪ ۱۱‬؍ برس بعد ) پر بھی تنخواہ سے زیادہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے ‪ ،‬بلکہ کئی ٹیکس لگادئے گئے ہیں‪ ،‬بجلی ‪ ،‬گیس ‪،‬‬
‫پانی‪ ،‬ٹیلے فون وغیرہ کے ماہانہ ِبل پابندی سے ادا کرنے کے باوجود آسمان سے باتیں کررہے ہیں‪ ،‬ہللا ہی اس پُرفتن دور سے‬
‫معصوم عوام کو بچائے ‪ ،‬آمین ! نور خان محمد حسنی ’’ بلوچستان میں معدنی ذخائر ‘‘کو بیان کررہے ہیں ‪ ،‬کمال ہے کہ اربوں‬
‫ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر کا حامل و مالک صوبۂ پاکستان ’’فقر و فاقہ ‘‘کا شکار ہے؟؟کیوں ؟؟اس کا صاف مطلب ہے کہ وسائل‬
‫کی درست تقسیم کا نظام نھیں ۔ مرکزی حکومت اہل نھیں اور نہ ہی صوبائی خود مختار ہے ۔ڈاکٹر قمر عباس اس بار بھی خاص‬
‫الخاص مضمون ’’ڈاکٹر ادیب الحسن ‘‘ صاحب کی صورت میں الئے‪ ،‬پاکستان میں اگر حکیم سعید ؒ ‪ ،‬عبد الستار ایدھی ؒ ‪ ،‬ڈاکٹرا‬
‫دیب الحسن رضوی‪ ؒ،‬ڈاکٹر عبد القدیر خان‪ ؒ،‬موالنا محمد بشیر فاروق قادری صاحب(بانی‪ ،‬مہتمم و منصرم‪:‬سیالنی ویلفئر ٹرسٹ ‪،‬‬
‫پاکستان ) و دیگر شخصیات نہ ہوتیں تو کیا ہوتا ؟؟ کیا ’’انسانیت ‘‘ واقعی سسکتی رہ جاتی ؟؟ (فالحی کاموں کے سلسلے میں ‪،‬اگر‬
‫میں کوئی اہم نام بھول رہا ہوں تو اسے میرے کمزور حافظہ سے تعبیر کیا جائے)‬
‫پشاور کے ہوسٹ ماسٹر جنرل صاحب ظہیر ہللا خٹک کے انٹرویو کو پڑھ کر دیر تک ماضی میں بننے والے گیارہ ہندسوں والے‬
‫شناختی کارڈ کا سوچ کر دیر تک مسکراتا رہا‪ ،‬کیونکہ اُس دورمیں حکمراں طبقہ اور عوام کے درمیان اعتماد کے َرسّے کی‬
‫مضبوطی اور پائیداری کا یہ عالم تھا کہ خواتین کی تصویر تک شناختی کارڈ پر نھیں ہوا کرتی تھی‪ ،‬چوڑے چوڑے کارڈز اب تک‬
‫عوام وطن پاک بھی ’’اسمارٹ ‘‘ہوتے‪ ،‬روز بروز‬ ‫ِ‬ ‫یاد ہیں‪ ،‬اب تو ایک ’’اسمارٹ ‘‘نُما زمانہ ہے‪ ،‬ہر چیز اسمارٹ ‪ ،‬کاش اخال ِ‬
‫ق‬
‫ت ارادی‪ ،‬مضبوط منفی ُرجحانات اور ُگمان و ’’گیان‘‘‪ ،‬استغفر ہللا! جب قوم کے پڑھے لکھے‬ ‫بڑھتی ہوئی عدم برداشت ‪ ،‬کمزور قو ِ‬
‫(کہالئے جانے والے اپنی ہی کر کا کپڑا اونچا کرنے پر ُمصر ہیں ‪ ،‬نہ چھوٹے پر شفقت‪ ،‬نہ بڑے کا احترام‪ ،‬ایک حسد‪ ،‬رقابت والی‬
‫زہریلی فضا جس نے وطن پاک کے پاکیزہ ومعطر ماحول کو یکسر سم آلود کررکھا ہے‪ ،‬دھواں ‪ ،‬گھٹن‪ ،‬کچرا‪ ،‬اُڑتی بے لگام‬
‫ٹریفک‪ ،‬پیدل چلنے کو ترستی قوم‪ ،‬بیکری سے ڈبل روٹی بھی النا ہو تو جوان لڑکا موٹر سائکل اُڑاتا جاتا ہے ‪ ،‬ایک ہم تھے‪ ،‬شیش‬
‫محل ‪ ،‬لیاقت آباد سے پاپوش بیکری سے تازہ ڈبل روٹی ‪ ،‬مکھن‪ ،‬ابن صفی کا ناول‪ ،‬بچوں کے رسائل خوشی خوشی الیا کرتے‪،‬‬
‫اورمجال ہے پیدل چلتے کوئی لڑکا یا لڑکی تھکنے کا نام بھی لیتا ہو؟ ہللا کا شکر ہے ‪ ،‬وہی تحریک اب تک قائم ہے‪ ،‬ہڈیوں اور‬
‫بیماریوں نے گو کہ نڈھال کردیا‪ ،‬عمر کا تقاضا الگ‪ ،‬لیکن ہللا معذوری اور محتاجی کی زندگی سے بچائے مالک ‪ ،‬آمین ‪ ،‬جان ہے‬
‫تو جہان ہے ‪ ،‬ورنہ ہر تحفہ بے جان ہے ) ‪،‬‬
‫’’ہیلتھ اور فٹنس ‘‘میں اِس ہفتہ ڈاکٹر سیّد اکبر عباس اور ڈاکٹر محمد رفیع ِرضا نے ’’سرطان ‘‘ جیسے موضوع پر قلم کا نشتر‬
‫لگایا تو روح تک جھنجھنا گئی‪ ،‬ہللا ہمارے ملک سے ان العالج بیماریوں ‪ ،‬ب لکہ تمام مہلک بیماریوں اور بیمار ماحول کا خاتمہ‬
‫کردے‪ ،‬نرجس بیٹی ! انسان کے لئے کتنا بُرا اور معیوب ہے کہ اُس کا باطن بیمار اور ظاہر َحسِین ہو ؟؟ مرکزی صفحات اپنے اُسی‬
‫رنگ و ُروپ کے ساتھ سجے ہوئے ہیں ۔ایک اچھی بات (تدریسی پہلو سے)مجھے یہ لگی کہ ماڈل کی فیشن زدہ جینز کے کٹے‬
‫پھٹے حصوں کو بڑی خوبصورتی سے ایڈٹ کردیا گیا‪ ،‬ظاہر ہے سیاہ رنگ نمایاں تو ہوا ‪ ،‬لیکن ایک پیغام بھی لئے ہویدا ہوا کہ ۔۔‬
‫چلو تفصیل جانے دو۔ڈاکٹر ناظر محمود ’’ ادبی دنیا ‘‘ میں معروف و مقبول ناول نگار الطاف فاطمہ کی کہانیوں میں وطن پرستی کا‬
‫موض وع الئے ‪،‬ثناء شاہد نے نجی ہسپتالوں کے چڑھتے اخراجات کا جائزہ لیا‪ ،‬ملک میں تعلیم‪ ،‬صحت‪ ،‬قانون وغیری ہمیشہ ہی اہل‬
‫نظر کرم ‘‘کے محتاج رہے ‪ ،‬لیکن بہتر (‪ )۷۲‬برس ہوچلے‪ ،‬اپنی اپنی ڈفلی ‪ ،‬اپنا اپنا راگ والی کیفیت ابھی تک ’’کرسی‬ ‫افراد کی’’ ِ‬
‫نشیں ‘‘ہے۔ہللا ہدایت دے ‪ ،‬آمین ! ’’متفرق ‘‘ ہی کے دوسرے ورق پر علیمہ ریاض ‪ ،‬عامر بن علی اور حفیظ کاشمیری کے‬
‫مضامین بھی اچھے ہیں ۔’’ڈائجسٹ ‘‘ میں اس ہفتہ دو جاندار ‪ ،‬سبق آموز کہانیاں اور ایک غزلی موجود ہے۔’’محبت فاتحِ عالم ‘‘‬
‫ایک عمدہ کہانی ہے ۔’’نئی کتابیں ‘‘ اپنے دامن میں مفید کتابیں لئے آیا ‪’’ ،‬آپا کا صفحہ ‘‘ اپنے روایتی انداز کے ساتھ ظاہر ہوا‪،‬‬
‫اسماء خان کو ُکرسی ملنے پر دلی مبارک باد‪،‬عمران خالد خان بڑے طویل تعطل کے بعد مختصر سا لکھتے ہیں ‪ ،‬عمران کو میں پتا‬
‫نھیں ‪ ،‬یاد بھی ہوں گا یا نھیں؟ اس محنتی نوجوان نے ’’بچوں کی کہانیوں ‘‘ سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا تھا‪ ،‬اُس وقت تو واٹر‬
‫پمپ پر رہائش تھی‪ ،‬اب کی ہللا جانے‪ ،‬بعض اوقات بڑے پُرانے نام مل جاتے ہیں اور مسلسل سُلگنے اور سُلگانے والی دُھواں دیتی‬
‫لکڑیاں بھی‪ ،‬کیونکہ تم اس صفحہ کو ’’ہائڈ پارک ‘‘ کے ٹائٹل سے پیراستہ کرچکی ہو ‪ ،‬لہٰ ذا اب برداشت کیجئے مدیرہ صاحبہ !!!‬
‫حتاج دعا‪( :‬مجیب ظفر انوار حمیدی‪ ،‬گلبرگ ٹاؤن‪ ،‬کراچی )‬ ‫ِ‬ ‫السالم علیکم ؒ ‪ُ ،‬م‬
‫رابطہ موبائل فُون ‪:‬‬
‫‪:PTCL‬‬
‫فی امان ہللا العظیم !‬
‫دعا گو ‪/‬دعا جو ‪ :‬پروفیسر ڈاکٹر سیّد مجیب ظفر انوار حمیدی ‪،‬کراچی‬

Você também pode gostar